پاکستان

'ریٹرننگ افسران کے خلاف صرف سات شکایات موصول ہوئیں'

الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک پارلیمانی کمیٹی کو جو دستاویز پیش کی گئی، اس کے مطابق یہ ساتوں شکایات معمولی نوعیت کی تھیں۔

اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے پیر کے روز انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کو ایک دستاویز پیش کی۔

یہ دستاویز عدلیہ سے لیے گئے ریٹرننگ افسران کے خلاف ان شکایات پر مشتمل تھی، جو گزشتہ سال کے عام انتخابات کے دوران موصول ہوئی تھیں۔

تاہم یہ دستاویز حزبِ اختلاف کی متعدد شکایات کے برعکس سامنے آئی ہے، جس میں اس کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسران بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں میں ملؤث تھے۔

اجلاس کے شرکاء میں سے ایک نے ڈان کو بتایا کہ اس دستاویز کے مطابق صرف سات شکایات ریٹرننگ افسران کے خلاف موصول ہوئی تھیں، اور وہ سب کی سب معمولی نوعیت کی تھیں۔

اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے پارلیمانی کمیٹی کو ایک اجلاس کے روداد بھی فراہم کی۔ اس مشاورتی اجلاس کے دوران اہم سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کے افسران کو انتخابات کے دوران ضلعی ریٹرننگ آفیسر (ڈی آر اوز) اور ریٹرننگ افسران (آر اوز) کے طور پر مقرر کرنے کی درخواست کی تھی۔

اس پارلیمانی کمیٹی نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں اگلے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور ووٹرز کی تصدیق کے لیے بایو میٹرک سسٹم متعارف کروانے کی تجویز پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

کچھ اراکین نے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔

پارلیمانی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ وہ اس نظام کو متعارف کروانے سے قبل ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کرے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی ایک پائلٹ پروجیکٹ کے لیے منصوبہ بنایا تھا اور انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ یہ کمیشن اس تجربے کے دوران سامنے آنے والی خامیوں کو دور کرتے ہوئے احتیاط کے ساتھ آگے بڑھے گا۔

پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین اور اس کے اراکین نے الیکشن کمیشن کو 2014ء کے ایک بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے اس کی نامزدگی پر مبارکباد پیش کی۔

واضح رہے کہ یہ ایوارڈ انتخابی ماہرین کی معروف جیوری بین الاقوامی مرکز برائے پارلیمانی اسٹڈیز (آئی سی پی ایس) کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ اس جیوری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس کی کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستوں میں پیش رفت کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کمیٹی کے سیکریٹری کرامت حسین نیازی کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی کی جانب سے انتخابی نظام میں بہتری کے لیے مختلف اقسام کی ایک ہزار دو سو تراسی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔

ان تجاویز کی نقول ارکان کے مطالعے کے لیے پیش کی گئیں۔

پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کو انتخابی اصلاحات پر بین الاقوامی فاؤنڈیشن (آئی ایف ای ایس)، آزاد و منصفانہ انتخابی نیٹ ورک (فافین)، یو ایس ایڈ کی سفارشات کا ایک مجموعہ بھی پیش کیا گیا۔

اس کے علاوہ ماضی میں سینٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی جانب سے دی کی گئی مجوزہ ترامیم کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا تیار کردہ ایک متفقہ انتخابی قانون کا مسودہ بھی پیش کیا گیا۔

ان تجاویز پر بحث کے لیے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد کی سربراہی میں ایک گیارہ رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

یہ ذیلی کمیٹی جلد ہی اپنی سفارشات سے مطلع کرے گی، اور تیس اکتوبر کو اس کا اجلاس ہوگا۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مختلف اقسام کی ایک ہزار دو سو تراسی تجاویز پیش کی گئی تھیں، جن میں آئین میں ترمیم کے لیے 396 تجاویز بھی شامل ہیں، جبکہ 473 عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء سے متعلق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 312 تجاویز انتظامی نوعیت کی تھیں، 19 حدبندیوں سے متعلق اور 25 انتخابی فہرستوں کے بارے میں تھیں۔ 49 تجاویز 2002ء کے انتخابی قوانین کے بارے میں تھیں، جبکہ 9 عام نوعیت کی تھیں۔

وزیرِ خزانہ کے مطابق یہ پارلیمانی کمیٹی انتخابی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک قومی ذمہ داری کے عزم کے ساتھ کام کررہی ہے، اور یہ بھی کہ انہوں نے تمام اراکین کو اس سلسلے میں ان کی بہترین شراکت کی دعوت دی تھی۔

پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے مختصر تعداد میں ریٹرننگ افسران کے خلاف تحریری شکایات موصول کی تھیں، اس طرح لوگ جانتے ہیں کہ ایک بے اختیار کمیشن بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد ایک جائزہ رپورٹ الیکشن کمیشن کے اعلٰی سطح کے عہدے دار کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے تیار کی تھی، جس میں کچھ چیزیں سامنے آئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ نے پولنگ اسکیم اور عملے کی اچانک تبدیلی پر مشتمل مختلف بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا تھا۔