سندھ میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ مسترد
کراچی: منگل کے روز منعقد ہونے والی مختلف سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس (ملٹی پارٹی کانفرنس) نے متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے سندھ میں کئی انتظامی یونٹوں کی تشکیل کے مطالبے کو مسترد کردیا۔
اس کانفرنس میں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ صوبے میں مقیم ہر ایک فرد اپنے نسلی پس منظر سے قطع نظر سندھ کی تقسیم کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس کانفرنس کا عنوان تھا ’’انتظامی صوبے اور سندھ کی تقسیم کا مطالبہ سندھ، ملک اور امن کے خلاف ایک سازش ہے‘‘۔
جبکہ اس کا اہتمام مشترکہ طور پر جمعیت علمائے پاکستان اور قومی عوامی تحریک کی جانب سے کیا گیا تھا۔
دو سابق وزرائے اعلٰی کے علاوہ، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ نواز، پی ایم ایل فنکشنل، جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پاٹی، جمیعت علمائے اسلام فضل، بلوچستان نیشنل پارٹی، کئی سندھی قوم پرست جماعتوں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی اور اقلیتی برادری کے اراکین نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
کانفرنس کی صدارت جمیعت علمائے پاکستان کے جنرل سیکریٹری اویس احمد نورانی نے کی جبکہ قومی عوامی تحریک کے صدر نے ایاز لطیف پلیجو نے اس کا اہتمام کیا۔
ایاز پلیجو نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے رکن سعید غنی نے اپنی ذاتی حیثیت میں شرکت کی ہے۔
مولانا اویس نورانی نے غیرمعمولی اتحاد کا مظاہرہ کرنے پر شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی جماعت صوبوں کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے خلاف ہے، اور سندھ میں مقیم تمام افراد کو بھائی تصور کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کا ہر ایک شہری سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہوجائے۔
تین درجن سے زائد مقررین کو اپنی پارٹی کا نکتۂ نظر پیش کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اس کانفرنس کے منتظمین کی جانب سے پیش کیے گئے مؤقف توثیق کی اور کہا کہ سندھ کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
اس موقع پر ایاز پلیجو نے ایک مشترکہ قرارداد پڑھ کر سنائی، جو اس کانفرنس کا اعلامیہ بھی تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی اس کانفرنس کی رائے ہے کہ ملک اس وقت متعدد بحرانوں کا سامنا کررہا ہے، اور پنجاب میں سیلاب نے تباہی پھیلائی ہے، جس کی وجہ سے عوام لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ایک جانب سیلاب سندھ میں داخل ہورہا ہے، دوسری جانب فوج آپریشن ضربِ عضب میں مصروف ہے۔ کراچی سمیت پورے سندھ میں امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے،معصوم لوگوں کو نشانہ بناکر ہلاک کیا جارہا ہے، ملک اس وقت اقتصادی اور توانائی کے بحران کی گرفت میں ہے، لوڈ شیڈنگ اور بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ تھر خشک سالی کا سامنا کررہا ہے، جبکہ سندھ کے لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں۔
کانفرنس کی قرارداد کا کہنا تھااس صورتحال میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے سندھ اور دیگر صوبوں کو تقسیم کرکے ملک میں بیس صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ کیا، جس سے پاکستان کے 18 کروڑ لوگوں کی توہین ہوئی ہے۔
اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اس مطالبے سے سندھ میں ہم آہنگی اور ترقی کا راستہ کھولنے کے بجائے افراتفری اور نسلی تفریق پیدا ہوگی، جس کے نتیجے میں جھڑپیں اور فسادات برپا ہوں گے۔
ایاز پلیجو نے قرارداد پڑھتے ہوئے کہا ’’یہ کانفرنس نفرت اور افراتفری پیدا کرنے والے کسی بھی اقدام کو مسترد کرتی ہے، جس سے انتظامی صوبوں کے نام پر پاکستان کے استحکام کو خطرہ ہوسکتا ہو، اور سندھ اور ملک میں تمام بیٹے اور بیٹیاں جو امن، ترقی اور جمہوریت کے لیے کھڑے ہیں، سندھ اور ملک کی تقسیم کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں، اور یہ قرارداد ایسے کسی بھی اقدام کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔‘‘
’’یہ کانفرنس سندھ سمیت پاکستان میں امن سے محبت کرنے والے تمام لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارہ دیکھنا چاہتی ہے، اور سندھی، اردو، پشتو، بلوچی، سرائیکی اور پنجابی بولنے والے ایسے تمام لوگ جو سندھ میں رہائش پذیر ہیں، یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ اور ملک کو سیاسی تصادم، ذاتی یا پارٹی مفاد اور عالمی ایجنڈے کی خاطر داؤ پر نہیں لگانے دیا جائے گا۔‘‘
کانفرنس نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی فوری امداد کا بھی مطالبہ کیا۔
قرارداد میں مزید کہا گیا تھا کہ موجودہ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں تصادم سے گریز کیا جائے، مکمل صوبائی خودمختاری فراہم کی جائے، مقامی حکومتوں کے انتخابات ایک نئے آزاد الیکشن کمیشن کے تحت منعقد کرائے جائیں اور بدعنوانی کی لعنت کو ختم کیا جائے۔