پاکستان

'پاکستان کا نظامِ حکمرانی مکمل ہے'

ایک مذاکرے میں ماہرین نے اتفاق کیا کہ پاکستان کو کسی دوسرے مسلم ملک کا حکومتی نظام اپنانے کی ضرورت نہیں۔

اسلام آباد: حکومتی نظام کو اپنانے کے لیے پاکستان کو کسی دوسرے مسلم ملک کی جانب نہیں دیکھنا چاہیٔے، اس لیے کہ اس کا اپنا ملکی نظام ایک مکمل نظام ہے۔

یہ ایک گول میز کانفرنس کا موضوع تھا، جو یہاں ہیئنرچ بال اسٹفٹنگ (ایچ بی ایس) پر پیر کو منعقد ہوئی۔

’حکومت، برادری اور مذہب‘ پر مذاکرے کا یہ سلسلہ اسلام آباد کے مرکز برائے ریسرچ اور سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) اور ہیئنرچ بال اسٹفٹنگ (ایچ بی ایس) کی ایک مشترکہ کوشش ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم رہنما طاہرہ عبداللہ نے اس اجلاس میں میزبانی کے فرائض انجام دیے۔

مقررین میں ترکی کے اسکالر ڈاکٹر بہلول اوزکان اور انڈونیشیا میں سابق سفیر میاں ثناء اللہ شامل تھے، جنہوں نے اسلامی نظام حکومت کے مختلف نمونوں پر عمومی اور خاص طور پر ترکی اور انڈونیشیا کے تناظر میں اپنا نکتۂ نظر پیش کیا۔

اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کو کسی دوسرے حکومتی نظام کے ماڈل کو اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہیٔے۔

ڈاکٹر بہلول اوزکان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی نے پچھلے کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی کے دوران بہت سے ترکی طالبعلموں نے پاکستان سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔

تاہم ڈاکٹر بہلول نے تسلیم کیا کہ ترکی جو ایک سیکیولر ملک تھا، وہاں پر بھی مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہمارے قانون میں ایک جرم ہے۔ لیکن انہوں مزید کہا کہ اس کے باوجود ترکی کی حکومت اسلام کا نام سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ترک اسکالر نے کہا کہ گزشتہ سال جب کوئلے کی کان میں ہلاک ہونے والے لگ بھگ تین سو کان کن ہلاک ہوگئے تھے تو حکومت نے حزبِ اختلاف کی بڑھتی ہوئی تنقید سے بچنے کے لیے ہلاک ہونے والے کان کنوں کو ’شہید‘ قرار دے دیا تھا۔

سیاست میں ترکی کی فوج کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بہلول نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو ترکی کی فوج کا سیاست میں کوئی سنجیدہ کردار نہیں تھا۔

انہوں نے کہا ’’پاکستانی فوج نے اس ملک پر تیس برس حکومت کی ہے، لیکن میرے ملک پر فوج نے مشکل سے چھ سال ہی حکومت کی۔‘‘

ڈاکٹر بہلول نے مزید کہا کہ ترکی کی سیاست میں فوج کا براہ راست اور واضح کوئی کردار نہیں ہے۔

’’لیکن ملکی معاملات میں فوج کو پسِ پردہ اہم گردانا جاتا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترکی میں میڈیا آزاد نہیں ہے۔

ڈاکٹر بہلول نے بتایا صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا میڈیا پر تقریباً مکمل کنٹرول ہے اور صحافیوں کے لیے حکومت کی برائیوں کو بے نقاب کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

میاں ثناء اللہ نے کہا کہ پاکستان کے لیے انڈونیشین ماڈل مناسب نہیں ہوسکتا۔

’’ہم نہیں کہہ سکتے کہ انڈونیشیا میں مکمل اسلامی یا سیکولر نظام ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ انڈونیشیا میں چھ مذہبی ریاستیں تھیں۔

میاں ثناءاللہ نے کہا کہ انڈونیشیا کے کچھ صوبے سختی کے ساتھ اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ دیگر میں اسلام کا کوئی کردار نہیں ہے۔