پاکستان

الطاف حسین کی خبر بجٹ تقریر پر غالب

پارلیمنٹ ہاؤس کے برآمدوں میں بجٹ تقریر کے بجائے الطاف حسین کو حراست میں لیے جانے کی خبر پر گرما گرم بحث جاری تھی۔

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں منگل کے روز وزیراعظم نواز شریف نے بظاہر ایک جرأت مندانہ قدم اُٹھاتے ہوئے پاکستان کی سب سے طویل بجٹ تقریر کو مذہبی غم و غصے کی زد میں آنے سے بچالیا۔

واضح رہے کہ پہلے ہی یہ تقریر لندن میں ایم کیو ایم کی گرفتاری کی خبر کے سائے تلے دب چکی تھی۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو کل لندن میں پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا تھا۔

اپنے خودساختہ طور پر جلاوطن رہنما کے بارے میں تشویش کی بنا پر متحدہ قومی موومنٹ کے چوبیس اراکین اسمبلی میں سے کوئی ایک بھی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سننے کے لیے ایوان میں موجود نہیں تھا۔

اگرچہ سینیٹ میں ان کے کچھ ساتھی موجود تھے، جبکہ ایک اور نمایاں غیرحاضری وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی تھی، جو ممکن ہے کہ کراچی میں اس واقعے پر احتجاج سے پیدا ہونے والی پُرتشدد صورتحال کی وجہ سے غیرحاضر رہے ہوں۔

مالی سال 2014-2015ء سے کہیں زیادہ منی لانڈرنگ کے الزام پر الطاف حسین کے خلاف لندن پولیس کی کارروائی کے ممکنہ اثرات پر پارلیمنٹ کے ایوانوں کے برآمدوں اور گیلریز میں گرماگرم بحث جاری تھی۔

البتہ کوئی بھی ان بحثوں کو ایوان میں نہیں لایا، اگرچہ عام طور پر شاکی رہنے والے پنجاب کے آزاد رکن جمشید دستی نے دو گھنٹے سے زیادہ طویل وزیرِ خزانہ کے پُرجوش خطاب میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی، جس خطاب میں پچھلے ایک سال کے دوران حکومتی کامیابیوں کےد عوے کیے گئے تھے۔

لیکن جمشید دستی کو اسپیکر ایاز صادق نے خبردار کیا کہ ان کو خاموش کرنے کے لیے دیگر ذرائع بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

اگرچہ اسحاق ڈار کو مسلم لیگ نون کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے تعریفی کلمات موصول ہورہے تھے، لیکن وزیراعظم کو احساس ہورہا تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت ہونے والا ہےچنانچہ بجٹ کی تقریر کے دوران نماز کا وقفہ کردیا جائے، جو اس سے قبل کسی بجٹ تقریر کے دوران کبھی نہیں ہوا تھا۔

اِدھر وزیرِ خزانہ کی تقریر جاری تھی، تو وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے کچھ وزیروں کو یکے بعد دیگرے بلایا اور کہا کہ وہ اسپیکر سے ان کی سیکریٹری کے ذریعے اور حزبِ اختلاف کی پارلیمانی پارٹیوں کے کچھ رہنماؤں سے اس سلسلے میں بات کریں، بظاہر انہوں نے اس حوالے سے اپنی رضامندی کا بھی اظہار کیا۔

اس ظاہری رضامندی کے نتیجے میں، مؤذن کے مغرب کی اذان دینے کے بعد اسپیکر نے معمول کے بجائے اجلاس کو ملتوی نہیں کیا ، بلکہ انہوں نے وزیرِ خزانہ کو ڈیڑھ گھنٹہ مزید دیا کہ وہ اپنی تقریر کو ختم کرلیں۔

اذان کے فوراً بعد مغرب کی نماز کے لیے ایوان کا اجلاس ملتوی کیا جانا قومی اسمبلی میں معمول رہا ہے۔

اور اس معاملے میں اسپیکر نے مزید سختی اختیار کرلی تھی، جب انہوں نے دیکھا کہ جمیعت علمائے اسلام فضل کے ایک رکن اسمبلی مولانا امیر زماں سات مئی کو ظہر کی نماز کے لیے اپنے چیمبر میں چلے گئےتھے، جبکہ وقفے کا آرڈر نہیں دیا گیا تھا، جس سے اسپیکر کو اس دن وقفے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔

جب وزیرِ خزانہ اپنی حکومت کی اقتصادی کامیابیوں کی بات کررہے تھے تو جمشید دستی نے چلّاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سب کا سب جھوٹ ہے‘‘ اور اسحاق ڈار کی تقریر کی کاپی پھاڑ دی۔

جمشید دستی کے مسلسل چلّانے کے بعد اسپیکر نے ان سے کہا کہ ’’مجھے دوسرے طریقے استعمال کرنے پر مجبور نہ کریں۔‘‘ بظاہر انہوں نے خبردار کیا تھا کہ وہ سیکورٹی اسٹاف کے ذریعے انہیں ایوان سے بے دخل کردیں گے۔

تاہم جمشید دستی وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کے سمجھانے کے بعد اپنی نشست پر خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔