پاکستان

پنجاب: توہین مذہب کے الزام میں احمدی قتل

پنجاب کے ایک گاؤں میں نوجوان نے توہین مذہب کے مبینہ ملزم 65 سالہ شخص کو پولیس اسٹیشن میں گھس کر فائرنگ کر کے قتل کردیا۔

اسلام آباد: پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک نوجوان نے جمعہ کو توہین مذہب کے مبینہ ملزم 65 سالہ شخص کو پولیس اسٹیشن میں گھس کرفائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔

انسانی حقوق کی کارکنوں کے مطابق مذکورہ حملہ اور توہین مذہب کے بڑھتے کیسز اس بات کے شاہد ہیں کہ ملک میں عدم برداشت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

احمدی برادری کے ترجمان سلیم الدین نے بتایا کہ متاثرہ شخص خلیل احمد اور دیگر تین احمدیوں نے لاہور سے 33 کلو میٹر دور گاؤں شرق پور کے دکاندار سے رواں ہفتے ان کی برادری کے خلاف چسپاں اسٹیکرز ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے جواب میں دکاندار نے 12 مئی کو ان چاروں افراد کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرادیا تھا جس کے بعد چار بچوں کے باپ احمد کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔

سلیم الدین نے بتایا کہ جمعہ کو ایک لڑکا احمد سے ملاقات کی غرض سے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوا اور گولیاں مار کر اسے ہلاک کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے بتایا ہے کہ اس نے قاتل کو گرفتار کر لیا ہے جو ایک ہائی اسکول کا طالبعلم ہے۔

سلیم الدین نے رائٹر کو بتایا کہ پولیس نے ہمیں بتایا ہے کہ احمد کو مارنے والا نوجوان لڑکا ہے۔

'ملاؤں کی جانب سے ہمارے خلاف نفرت و اشتعال پھیلانے کی مہم جاری ہے'۔

انہوں نے سیکورٹی میں کمزوریوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو توہین رسالت کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے ان کے اپنے ہی گارڈ نے قتل کردیا تھا جبکہ اس کے علاوہ بھی متعدد افراد اسی بات کو بنیاد بنا کر قتل کیے جا چکے ہیں۔

احمدی برادری کے افراد کو قرآن پاک کی تلاوت، مذہبی رسومات منانے اور شادی کارڈز اور انگوٹھیوں میں قرآنی آٰات چھپوانے پر گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ چار سال قبل و مختلف حملوں میں 86 احمدی ہلاک ہو گئے تھے۔

برطانوی راج میں بھی توہین مذہب کی تشریح نہیں کی گئی تھی لیکن اسکی سزا موت ہی تھی۔ کوئی شخص محض اس بات پر کہ اس کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے کسی بھی شخص پر الزام عائد کر سکتا ہے۔

توہین مذہب کے ملزمان کو جلانا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات عام ہیں جبکہ ان ملزمان کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا پر بھی حملے کوئی نئی بات نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون عام طور پر پیسہ یا جائیداد بٹورنے کے ساتھ ساتھ ذاتی عناد نکالنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ء2012 میں اسلام آباد کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق اس قسم کے الزمات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2001 میں اس قسم کی صرف ایک شکایت سامنے آئی تھی جبکہ 2011 میں اس قسم کی شکایات کی تعداد 80 تھی۔

رواں سال کے حوالے سے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں تھے تاہم اس سلسلے میں یہ اب تک ایک ریکارڈ ثابت ہوا ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں ایک شدت پسندوں کی حمایت کے باعث کالعدم قرار دیے گئے انتہا پسند گروپ کے رہنما کی ترغیب پر 68 وکلا پر توہین مذہب کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے اس کسی قسم کے مقدمے کے ایک ملزم پروفیسر کا مقدمہ لڑنے والے وکیل کو دیگر وکلا کی جانب سے دھمکیوں کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔