پاکستان

آخر عمران خان چاہتے کیا ہیں؟

پی ٹی آئی اپنے مطالبات پارلیمنٹ میں کیوں نہیں پیش کرتی، اس کے لیے وہ اسٹریٹ پاور کا سہارا کیوں لے رہی ہے؟

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کل بروز اتوار اپنی پارٹی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔ اس میں کئی چیزیں غیر واضح محسوس ہوئیں کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل جب انہوں نے اپنی پارٹی کا جلسہ اسلام آباد میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی کافی الجھن نظر آرہی تھی کہ وہ کیا حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کیا وہ چار انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی چاہتے تھے؟ یا پھر وہ ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد چاہتے تھے؟ یا پھر بعد ناقدین کے بقول عمران خان اس نظام کو پٹری سے اُتارنے کی کوشش کررہے ہیں؟

پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے کی جانے والی بہت سی تقاریر میں اس بات پر اصرار کیا گیا کہ ان کی جماعت محض انصاف کے لیے کوشش کررہی ہے، جو اس کو اب تک عدالتی نظام کی جانب سے نہیں دیا گیا ہے۔ اس کی درخواستیں انتخابی ٹریبیونلز میں پڑی ہیں اور عدالت نے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔

لیکن اس معاملے میں حکومت کیا کرسکتی ہے، جسے اسلام آباد کے جلسے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ جبکہ عمران خان کے بقول انہیں عدالت نے انصاف فراہم نہیں کیا تھا۔

کسی نے بھی اس کا جواب نہیں دیا۔

تاہم عمران خان کی تقریر میں مزید الجھن موجود تھی۔

انہوں نے فوری طور پر وسط اور طویل مدتی کارروائیوں کا مطالبہ کیا جس میں ان باتوں کا احاطہ کیا گیا تھا کہ چار انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروائی جائے، الیکشن کمیشن کے موجودہ اراکین جنہوں نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تھی، انہیں بطور سزا برطرف کیا جائے اور مستقبل میں ایک غیرجانبدار نگران سیٹ اپ قائم کیا جائے۔

چار انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے کو دیکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر اپنے اس مطالبے کو لے کر پی ٹی آئی کو ملک بھر میں جلسوں کے ایک سلسلے کا منصوبہ بنانے کی ضرورت کیوں پڑی ہے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا اگلا جلسہ فیصل آباد میں اس مہینے کے آخر میں منعقد کریں گے۔

پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں ایک مؤثر موجودگی ہے، الیکشن کمیشن اور انتخابی عمل کی اصلاح اور اس کو مضبوط بنانے کے لیے آخر وہ قانون میں تبدیلیوں کو کیوں نہیں متعارف کرواتی؟

اس کے بجائے وہ کیوں اسٹریٹ پاور کا سہارا لے رہی ہے؟

مزید یہ کہ اس کے مطالبات میں کچھ کا مفہوم بھی واضح نہیں ہے۔

مثال کے طور پر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اب اس بات کو یقینی بنا دیا گیا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کا انتخاب کے لیے حکومت اور حزب اختلاف مشترکہ طور پر فیصلہ کریں گے۔

کیا عمران خان کے الفاظ کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ وہ اتفاقِ رائے ناکافی تھا؟ لگتا تو ایسا ہی ہے۔

لیکن کیا وہ خود کو اس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم یہاں اپنی بات کو دہرانا چاہیں گے کہ آخر وہ پارلیمنٹ کا استعمال کرتے ہوئے ان معاملات کو اجاگر کیوں نہیں کرتے ؟

درحقیقت صرف ایک نکتہ ایسا تھا جس میں کچھ اپیل موجود تھی، جب انہوں نے نگران حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے نگران حکومت میں عہدے قبول کیا تھا، انہیں اگلے دو سال کے لیے کسی بھی حکومتی عہدے پر تقرری کی اجازت نہیں ہونی چاہیٔے۔

انہوں نے واضح طور پر نجم سیٹھی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پنجاب کے نگران وزیراعلٰی کی مدت پوری کرنے کے بعد پاکستانی کرکٹ کی نگرانی کے لیے براہِ راست قذافی اسٹیڈیم میں چھلانگ لگادی۔

تاہم اس کے علاوہ عمران خان کی تقریر میں عملی طور کوئی مفید بات نہیں تھی۔

اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا مطالبہ وہ پارلیمنٹ میں لے جاسکتے تھے اور انہیں لے جانا چاہیٔے تھا۔ آخر کوئی پارٹی اس کی کیوں مخالفت کرے گی؟ اس طرح کے اقدام کے لیے ملک گیر احتجاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔

جلسے کے بعد پی ٹی آئی کا کوئی بھی سینئر رہنما اس وضاحت کے لیے دستیاب نہیں تھا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ان کے پارٹی چیف نے پارلیمنٹ میں مؤثر موجودگی کے باوجود اس جلسے کا انعقاد کیا۔

پہلے ہی افواہوں کو آہستہ آہستہ تقویت مل رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے اس جلسے کا اعلان بغیر کسی دوراندیشی یا بہتر منصوبہ بندی کے بغیر جلد بازی میں کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے ایک سخت ناقد اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کے وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ کی بات پر کوئی حیرت نہیں ہے کہ جنہوں نے اس بات کا ایک ٹیلی ویژن چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بات کہی تھی کہ ’’اس طرح کی تبدیلیوں کے لیے صرف پارلیمنٹ ہی واحد فورم ہے اور اس جماعت کو ایوان میں اپنی موجودگی کو استعمال میں لانا چاہیٔے ۔ اس کام کے لیے ملک بھر سے لوگوں کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‘‘

بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ عمران خان تصور کرتے ہیں کہ ان کا کردار سیاسی میدان سے باہر بیٹھے ایک سیاستدان کا ہے۔ جبکہ انہیں اب پاکستان کے عوام نے منتخب کرکے اپنی نمائندگی کے لیے پارلیمنٹ میں بھیج دیا ہے۔