پاکستان

بلوچستان میں امن مذاکرات جاری ہیں: جنرل ناصر جنجوعہ

سدرن کمانڈ کے کمانڈر نے کہا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے یہ اقدام اُٹھایا گیا تھا، کیونکہ ترقی کا انحصار امن پر ہے۔

گوادر: پاکستانی فوج کے سدرن کمانڈ کے کمانڈر لفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے۔

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں گزشتہ روز منگل کو مقامی عمائدین سے اور حکام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبہ میں امن کی بحالی کے لیے فوج صوبائی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں جاری بدامنی کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، کیونکہ صوبے کی ترقی کا انحصار امن پر ہے۔

جنرل ناصر خان جنجوعہ نے اُمید کا اظہار کیا کہ گوادر پر ایک فعال بندرگاہ کے قیام سے ناصرف ملک کی اقتصادی صورتحال میں بہتری آئے گی، بلکہ صوبے میں ہزاروں نوجوانوں کے لیے روزگار کی سہولت بھی مہیا ہوگئی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کے ساتھ اہم منصوبوں کے معاہدوں پر عملدرآمد ہوا ہے جن میں گوادر بندرگاہ بھی شامل ہے جو بلوچستان کی خوشحالی میں مدد گار ثابت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام محبِ وطن اور ملک کے وفادر ہیں اور وہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کے بارے میں جانتے ہیں۔

جنرل ناصر جنجوعہ کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بلوچ عوام کسی بھی امن مخالف عناصر کو صوبہ کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے نہیں دیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ وہی عناصر ہیں جو معصوم لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں اور عوامی حمایت سے بھی محروم ہیں۔

انہوں نے کہا 'بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے جس سے یہاں کے لوگوں کو فائدہ ہو گا۔'

جنرل ناصر جنجوعہ نے ایران کے ساتھ تجارت کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ایک مشترکہ سرحدی بازار کے قیام کی تجویز پر مشاورت جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی پاکستان فوج کی جانب سے ایک تحفہ ہے جس کا مقصد نوجوانوں کو تکینکی طور پر مہارت فراہم کرنا اور انہیں روزگار کے قابل بنانا ہے۔

اس موقع پر فرنٹیئرکور بلوچستان کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل اعجاز شاہد کا کہنا تھا کہ مالی طور پر معاشرے کی ترقی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کروائیں، کیونکہ تعلیم کے بغیر عوامی ترقی کا تصور ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ افراد اور شدت پسندی جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو عوام کا تعاون درکار ہے۔