پاکستان

پاکستانی بندر روزگار کا ذریعہ

عطاء اللہ نیازی نے بتایا کہ وہ بندروں کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

پاکستان میں بندروں کا کاروبار آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ ہے انہیں اس وقت جنگلات سے پکڑ کر قید کر لیا جاتا ہے جب وہ بچے ہوتے ہیں اور پھر انہیں ٹریننگ دی جاتی ہے، ایک تربیت یافتہ بندر بیس سے تیس ہزار روپے (190 سے 285 ڈالرز) تک کما سکتا ہے۔ 46 سالہ ٹرینر عطاء اللہ نیازی نے بتایا کہ ان کے پاس تین بندر ہیں اور وہ انہیں اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کا ایک بندر پورے دن میں تقریباً 500 روپے (5 ڈالر) تک کما لیتا ہے، جو ان کے خاندان کے آٹھ افراد کے گزر بسر کا ذریعہ بنتا ہے۔

وہ یہ کام 11 سال کی عمر سے کر رہے ہیں اور پچھلے تین سال سے وہ اپنے بندر کو سلام کرنا، ڈانس کرنا، ہاتھ ملانا اور وہ تمام طریقے سکھا رہے ہیں جس سے ان کا بندر لوگوں کی توجہ حاصل کر سکے اور مزید منافع بخش ثابت ہو۔ نیازی نے بتایا کہ عام طور پر ان کے اونرز شمال مغربی سوات، مری اور اسلام آباد کے باہر کی طرف کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس طرح کے بچے تلاش کر سکیں لیکن جانوروں کے حقوق کے عہدیدار عاطف یعقوب بندروں کی پرفارمنس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ان کے مطابق اس طریقے سے بندروں کو لے جانا جنگلات کے قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے انہوں نے بتایا کہ اکثر بندروں کی تربیت کے دوران انہیں چھڑی سے مارا جاتا ہے، گلے میں رسی ڈال کر انہیں بے دردی سے کھینچا جاتا ہے جو ان کے نزدیک زیادتی کا باعث ہے۔