نقطہ نظر

تھر کا کالا سونا

کوئلہ ذخائر نکالنے کا منصوبہ شروع، مقامی تھری باشندوں کے حقوق کا تحفظ لازم ہے۔

اسلام کوٹ، تھرپار میں جمعہ کو چہار سُو مسکراہٹیں تھیں۔ آخرِ کار،کافی ٹال مٹول کے بعد صحرائے تھر کی ریت تلے مدفون کوئلہ ذخائر نکالنے کے لیے اُس منصوبے کا افتتاح ہوہی گیا، جس سے ریاست اور نجی سرمایہ کاروں کو علاقے کے قابلِ ذکر توانائی وسیلے سے استفادے کا موقع ملے گا۔

حکومتِ سندھ اور ایک نجی ادارے اینگرو کے اشتراک سے شروع کیے جانے والے اس منصوبے کا افتتاح وزیرِ اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے مشترکہ طور پر کیا۔

مسلم لیگ ۔ نون اور پیپلز پارٹی کا یہ اشتراکِ عمل ثبوت ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اسی کا انتخاب کرنا چاہیے، یہ نہایت ممکن ہے کہ کلیدی نوعیت کے قومی معاملات جیسا کہ توانائی بحران پر، مل کر پیشرفت کی جائے۔ ہمیں امید ہے کہ قومی اہمیت کے حامل دیگر مسائل جیسا کہ معیشت اور امن و امان پر بھی اسی طرح کی خوش مزاجی اور دوستی کا اظہار کیا جائے گا۔

لیکن وزیرِ اعظم کے لیے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ کس طرح یہ اور اس نوعیت کے دیگر منصوبوں سے پاکستان کا توانائی بحران دور کیا جاسکے گا؟ کہا جارہا ہے کہ منصوبے میں مجموعی طور پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے تاہم سن دو ہزار سترہ تک، کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کے ذریعے چھ سو ساٹھ میگاواٹ بجلی لائنوں میں دوڑنے لگی۔

توانائی کے سنگین بحران سے دوچار جیسا ملک، جس کو بجلی کی قلت کے سبب بدترین سماجی و اقتصادی نقصانات اٹھانا پڑرہے ہیں، اس کے واسطے یہ اعداد و شمار اطمینان کا باعث ہیں۔

تھر کی کوئلہ کانوں کے ذخائر ایک سو پچھہتر ارب ٹن تک ہیں؛ اگر ان ذخائر کے صرف ایک فیصد کو بھی نکال کر کام میں لایا جائے تو پاکستان کی توانائی سلامتی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

نہایت مہنگے درآمدی فرنس آئل سے بجلی کی غیر پائیدار پیداوار کے بجائے ہمیں زیادہ دانشمندانہ انرجی مکس طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ متعدد کو یقین ہے کہ توانائی بحران پر قابو پانے کی خاطر کوئلہ ذخائر سے استفادہ، پاکستان کے واسطے بہترین انتخاب ہے۔

اگرچہ تھر منصوبہ ہماری توانائی ضروریات پورا کرنے کے واسطے نہایت اہم ہے اور امید ہے کہ مزید تاخیر نہیں کی جائے گی تاہم یہاں مقامی باشندوں کے حقوق کا معاملہ بھی ہے، جنہیں اس منصوبے میں یقیناً حفاظت کی چھتری مہیا ہونی چاہیے۔

جمعہ کو افتتاحی تقریب کے موقع پر مقامی باشندوں نے مناسب معاوضے اور آبادکاری کا مطالبہ کرتے ہوئے، مظاہرہ کیا۔

وہ مقامی باشندے جو اس منصوبے سے متاثر ہوئے، انہیں، مارکیٹ نرخ کے مطابق زمینوں کا معاوضہ ادا کیا جائے اور ایسی جگہ آبادکاری کی جائے جہاں زندگی کی بنیای ضروریات تک انہیں با آسانی رسائی حاصل ہو۔

یہ بات بالکل بھی منصفانہ نہیں کہ کہ تھر کوئلے سے استفادہ تو پورا ملک کرے لیکن وہ جن کی زمینوں تلے سے یہ وسیلہ حاصل کیا جارہا ہو، وہی ترقی کے پھل کا ذائقہ چھکنے سے محروم رہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار