نقطہ نظر

متنازع سیاست

الطاف حسین کا متنازع خطاب نیا نہیں، بلدیاتی انتخاب میں 'مہاجر کارڈ' کا استعمال مقصد ہوسکتا ہے۔

سندھ میں، جلد یا بدیر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں ووٹ حاصل کرنے کے واسطے، سیاستدانوں کی شعلہ بیانی سے نگارخانہ میں اپنا کھیل شروع کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے سندھ کے اردو بولنے والے شہریوں کی خاطر علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'اگر' سندھ میں انہیں مساویانہ حقوق نہیں دیے جاتے تو پھر حالات کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ متحدہ کے قائد نے یہ بیان حیدرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن حقیقتوں کی بنیاد پر علیحدہ صوبے کا مطالبہ ہے، آگے جا کر وہ 'شاید' علیحدہ ملک کی تحریک میں نہ بدل جائیں۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے سنیچر کو اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے قائد نے حتمی طور سندھ توڑنے کی بات نہیں کی بلکہ اسے 'آخری آپشن' کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

تنازعات کے حوالے سے الطاف حسین اجنبی نہیں، لندن سے ان کے ٹیلی فونک خطاب نے ماضی میں کئی بار حساس اور متنازع موضوعات چھیڑے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ وہ سندھ اور پاکستان کی جغرافیائی حدود کی تبدیلی زیرِ بحث لائے ہوں۔

اب یہ حقیقی ہو یا تصوراتی، لیکن ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ کے بعض لوگوں کے درمیان، پُرکش نسلی جذبات جگانے اور احساس 'محرومی' کا قصہ چھیڑنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ شاید بلدیاتی انتخابات کا بخار ہی ہے۔

اگرچہ ہمارے متعدد سیاستدان ناسازگار حالات میں جامع جمہوریت کے اعلیٰ تصورات کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب انتخابات کاوقت آتا ہے تو چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر، ان کا جھکاؤ نسل، مذہب اور زبان کا کارڈ استعمال کرنے کی طرف ہوجاتا ہے۔

ایم کیو ایم کی پریشانی جس سطح پر ہے، اس تقریر سے اُس کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ آخرِ کار، گذشتہ عام انتخابات میں جہاں ایم کیو ایم قومی اور صوبائی اسمبلی میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، وہیں پی ٹی آئی کے باعث نہ صرف اس کے ووٹ کم ہوئے بلکہ وہ کراچی کی ایک اہم نشست سے بھی محروم رہی ہے۔

شاید یہ بخوبی آگاہ ہے کہ پی ٹی آئی جیسی جماعتیں اس کا ووٹ بینک کم کرسکتی ہیں، اس لیے ہوسکتا ہے کہ شہری سندھ کے اردو بولنے والوں کو ان کے مفادات کی بنیادی محافظ ہونے کی ازسرِ نو یقین دہانی سے، ایم کیو ایم 'مہاجر کارڈ' کھیل رہی ہو۔

علاوہ ازیں، طویل عرصے میں یہ پہلی بار ہوا کہ ایم کیو ایم وفاقی اور صوبائی، دونوں حکومتوں سے باہر ہے۔ لہٰذا، حیدرآباد میں جناب الطاف حسین کا سخت خطاب، سندھ میں پی پی پی اور وفاق میں مسلم لیگ نون، جو ایم کیو ایم کے انداز سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، کو سودے بازی کی طرف لانے کے واسطے بھی ہوسکتا ہے۔

بہرحال، جناب الطاف حسین کے سخت خطاب کے مقاصد خواہ کچھ بھی ہوں مگر یہ کمزور مشورے پر مبنی تھا جبکہ اس پر ایم کیو ایم کے حریفوں، سندھی قوم پرستوں نے بھی شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس تقریر کا تناظر ضائع نہیں ہونا چاہیے۔

علاوہ ازیں، متحدہ اور دیگر کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس طرح کے سخت بیانات، خاص طور پر نسلی استحصال پر شعلہ بیانی، پورے سندھ میں شدید بے چینی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم واقعی سندھ کی تقسیم چاہتی ہے تو نئے صوبے کی تشکیل کے لیے یہاں واضح طور پر آئینی طریقہ کار موجود ہے۔

بے شک، سندھ کی تمام تر سیاسی قوتوں کے لیے سب سے پُرکشش مقصد نسل، زبان اور مذہب کے بجائے جمہوریت کا استحکام اور یہاں کے باشندوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہی ہوگا۔

ڈان اخبار