دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مینگرووز کاٹے نہیں جاتے اور وہ قدرتی طور پر مرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب مقامی آبادی نے ایندھن کیلئےدوسرے درختوں پر انحصار شروع کردیا ہے۔
میانی ہور کے پاس تین آبادیاں، سونمیانی، ڈامب بندر اور بیرا کا انحصار میانی ہور سے حاصل ہونے والی مچھلیوں پر ہے۔
' بڑھتی ہوئی آبادی اور مچھلی کے بڑھتے ہوئے شکار کی وجہ سے اس اہم آبی ذخیرے کو خطرات لاحق ہیں۔'
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ساحلی آبادیاں عمومی طور پر اپنے رویوں میں تحفظ اور بچاؤ کو بہت اہمیت دیتی لیکن بعض مقامات پر وسائل کے بےدریغ استعمال سے خطرات لاحق ہیں۔
میانی ہور کو مرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے کی مدلل وجہ یہ ہے کہ کہ پاکستان ان 193 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے انٹرنیشنل کنوینشن آن بائیلوجیکل ڈائیورسٹی پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت تمام شامل ممالک کو2012 تک اپنے ساحلی اور سمندری علاقوں کا کم از کم دس فیصد رقبے کو محفوظ مقام قرار دینا تھا۔
اب تک دنیا بھر میں ایسے مقامات کی تعداد 5,880 ہے لیکن دستخط کرنے کے باوجود پاکستان نے اب تک کسی علاقے کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی ایسا درجہ دیا ہے۔
اگر پاکستان میانی ہور کو محفوظ شدہ علاقے کا درجہ دیتا ہے تو نہ صرف اس سے حیاتی وسائل سے لبریز اس اہم مقام کی مزید ترقی ممکن ہوگی بلکہ اطراف کی آبادیوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا۔
فائزہ الیاس کی رپورٹ