پاکستان

گوادر پورٹ چین کے حوالے، انڈیا کو تشویش

گوادر پورٹ کے ذریعے خلیج عرب کی جانب سے پاکستان کے راستے مشرقی چین کے لیے انرجی اور تجارت کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ ہندوستانی تجزیہ نگار

انڈیا کے وزیر دفاع اے کے انتھونی کا کہنا ہے کہ گوادر پورٹ کی خطے میں اسٹریٹیجک  اہمیت کی بناء پر، اس کے آپریشن میں چین کا کردار ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔

یاد رہے کہ کراچی سے چھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان ایران کی سرحد کے قریب واقع گوادر پورٹ کو سنگاپور کی پی ایس اے انٹرنیشنل کمپنی آپریٹ کررہی تھی، گزشتہ ماہ پاکستانی حکومت نے چین کی کمپنی اوورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ہندوستانی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جب یہ بندرگاہ مکمل ہوجائے گی تو آبنائے ہرمز کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں خلیج عرب کی جانب سے پاکستان کے ذریعے مشرقی چین کے لیے انرجی اور تجارت کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ چینی بحریہ بھی اس پورٹ کو استعمال کرے۔

چین اس کے علاوہ بھی کئی بندرگاہوں مثلاً سری لنکا میں ہیم بنٹوٹا اور بنگلہ دیش میں چٹاگانگ کی بندرگاہوں کی تعمیر کے لیے بھی فنڈفراہم کررہا ہے، یہ دونوں ممالک بھی انڈیا کے پڑوسی ہیں۔ لیکن انڈیا میں سینٹر فار ایئر پاور اسٹڈیز کے جئےراناڈے کا کہنا ہے کہ“گوادر کی بندرگاہ دیگر سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔”

پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ گوادر پورٹ انڈیا کا معاملہ نہیں ہے۔ “انڈیا کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیئے کہ پاکستان گوادر میں کس کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔”

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ گوادر ایک کمرشل پروجیکٹ ہے، اور اس پروجیکٹ میں چین کا کردار طویل عرصے سے جاری باہمی تعاون کا ایک حصہ ہے۔

 انہوں نے کہا“چین عملی طور پر ہر اس پروگرام میں مدد فراہم کرے گا، جو چین اور پاکستان  کے درمیان دوستی کے رشتے کو مضبوط اورپاکستان کی خوشحالی اور ترقی کو ممکن بنائے۔”

انڈیا کے وزیردفاع انتھونی نے بنگلور میں ایک ایئر شو میں اپنے خطاب میں کہا کہ انڈیا مجبور ہے کہ اپنی مسلح افواج کو جدید خطوط پر ترقی دے اور یہ ردعمل ہے کہ چین ایسا کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ“یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ایسا کررہے ہیں تو پھر ہم بھی یہی کریں گے۔”

انڈین منسٹر نے کہا کہ باوجود اس کے کہ معاشی بحران کی وجہ سے اس سال دفاعی بجٹ کے اخراجات میں تنگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اپنی افواج کو مزید بہتر بنانے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔