مثال کے طور پر گزشتہ سال مصر کی ایک عسکریت پسند مذہبی تنظیم کے رہنما مرجان سالم الجوہری نے فتویٰ دیا تھاکہ ابوالہول کے مجسمے سمیت تمام اہرامِ مصر منہدم کر دیے جائیں۔
ان کا خیال تھا کہ مصر کے مسلمانوں کو ملک سے بت شکنی کا فریضہ ادا کرنا چاہئے جو ان کے اوپر شریعت کی طرف سے عائد ہوتا ہے۔
چنانچہ الجوہری نے کہا کہ فوری طور پر ابوالہول اور اہرام مصر کو مسمار کیا جائے کیونکہ اللہ کے سوا بتوں کی عبادت گناہ عظیم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ عسکریت پسند افغانی طالبان کے شانہ بشانہ جنگ (جسے انہوں نے جہاد کا عنوان دیا) میں مصروف تھے تو انہوں نے طالبان کے ہمراہ بدھا کے مجسمے خود تباہ کیے تھے، کیونکہ افغان حکومت ایسا کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی تھی۔
مصر کے تعلیم یافتہ حلقوں کے علاوہ بزنس کمیونٹی نے الجواہری کی بات کو احمقانہ قرار دے کر رد کردیا تھا۔
سینٹرل ایشیا آن لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹریولنگ کے بزنس سے منسلک محمود سمیع کا کہنا تھا کہ اس فتوے نے مصر کی عالمی سیاحت میں ایک اچھی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس فتوے کی خبر کو بہت زیادہ اہمیت دے دی تھی۔
مصر کے بعض مذہبی حلقے مرسی کے برسراقتدار آنے اور اخوان المسلمین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پریشان اور خائف ہیں، اس لیے کہ اس کے بعد سے مصر میں شدت پسندی کے نظریات کو فروغ مل رہا ہے۔
قاہرہ کے ضلع المعادی کی النور مسجد کے امام شیخ عبد المنعم محمد نے کہا کہ اس طرح کے فتووں سے اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسند سلفی نظریے کے پیروکار اپنے سیاسی ایجنڈوں پر کاربند رہتے ہیں، جن کا مقصد افراتفری پھیلانا اور دہشت گردی کو فروغ دینا ہے۔
مذہب پسند گروہ نے عام لوگوں کو تعمیر و ترقی کی راہوں سے دور کرکے ذہنی انتشار اور فکری بحران کے راستوں پر ڈال دیا ہے، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مصری بجٹ کے خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور امن و امان کی خراب صورتحال اقتصادی حالت کو مزید بدتر کرتی جارہی ہے۔
بہت سے مصری امريکی ڈالر خريد رہے ہيں۔ شوریٰ کونسل میں اخوان المسلمین اور ان کے حمایتیوں کی اکثریت ہے جبکہ اقتصادی ماہرين ناپید ہیں، چنانچہ ایک بڑا معاشی بحران تیار ہے کہ مصر پر اپنی گرفت مضبوط کرلے۔
صدر مرسی گو کہ بار بار اس اندیشے کو رد کر رہے ہیں کہ قومی معیشت کو انہدام کےخطرات لاحق ہیں، لیکن اقتصادی ماہرین ان کی بات تسلیم نہیں کرتے اس لیے کہ مصر کے سینٹرل بینک نے جب سے قومی کرنسی کی شرح مبادلہ کو یکساں رکھنے کی پالیسی ختم کی ہے، تب سے مصری پاؤنڈ کی قدر گزشتہ دس سالوں کے دوران ہونے والی گراوٹ کے مقابلے میں انتہائی نچلی سطح تک گر چکی ہے۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق مصر میں زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں اور پچھلے دو برسوں میں سینٹرل بینک معیشت کو سنبھالا دینے کی خاطر بیس ارب ڈالر کے برابر زر مبادلہ کا استعمال کر چکا ہے۔
ظاہر ہے اس کا نتیجہ شدید مہنگائی کی صورت میں نکلا ہے، بجلی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور التحریر اسکوائر کے انقلاب اور حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد سے اب تک درمیانے طبقےاور نچلے طبقے کا معیار زندگی مزید خراب ہو گیا ہے۔
مصری معیشت زراعت، آئل اینڈ گیس کی ایکسپورٹ کے بعد ٹورازم پر انحصار کرتی ہے، جس سے سالانہ گیارہ بلین ڈالرز کی آمدنی ہوتی ہے۔ 2008ء کے دوران ایک اندازے کے مطابق بارہ اعشاریہ آٹھ ملین سیاحوں نے مصر کا وزٹ کیا تھا، جبکہ حسنی مبارک کے خلاف تحریر اسکوائر پر جاری مظاہروں کے دوران ایک ملین سیاح اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے تھے۔تاحال مصر میں ٹورازم کی صنعت زوال سے دوچار ہے ۔
مصری فوج کے سربراہ کی وارننگ کہ ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے، کا مصری صدر پر اثر ہوا کہ نہیں البتہ مصری اپوزیشن کے رہنما پہلی مرتبہ اکھٹے ہوگئے ہیں اور انہوں نے صدر مرسی پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ مصر میں قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی ایک طریقہ ہے کہ ملک میں جاری تشدد کی لہر کو روکا جاسکے۔
مصر کے لوگ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ التحریر اسکوئر کے انقلاب نے ان کو کیا دیا۔
عام لوگ جو دن بھر حصول معاش میں مصروف رہتے ہیں، ان کی اکثریت کا تعلق انقلاب کے ساتھ محض ٹی وی کی حد تک ہی قائم تھا۔ اب ان کی زندگی میں پہلے سے کہیں زیاد مشکلات اور دشواریاں در آئی ہیں۔
پاکستان میں بھی دائیں بازو کی سوچ کے حامل بہت سے لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ چونکہ موجودہ حکمران یا بڑی سیاسی جماعتوں نے کرپشن کو فروغ دیا ہے، چنانچہ ایک انقلاب کے ذریعے یہاں بھی مذہبی قیادت کو حکمرانی کا موقع دینا چاہئے۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا رجحان مصری معاشرے سے کہیں زیادہ ہے، اگر قوت مقتدرہ کی پشت پناہی بھی ان شدت پسند گروہوں کا حاصل ہوجائے گی تو پھر معاشرے کا کیا حال ہوگا، جبکہ یہاں سندھ کی ہندو اور پنجاب کی عیسائی اقلیت ، ہزارہ شیعہ اور گلگت بلتستان کی شیعہ آبادی کے ساتھ جاری ظلم و تشدد کے واقعات آئے دن رونما ہورہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک میں ماضی کے رجحانات اور روایت کے تسلسل کی وجہ سے اداروں کو تشکیل نہیں دیا جاسکا، اور اقتدار اُسی کا حق قرار پاتا رہا جو اس پر قبضہ کرسکے یا غضب کرسکے۔
حکمرانی کو جب تک ایک جاب نہیں سمجھاجائے گا تب تک یہی صورتحال قائم رہے گی اور اب ماضی کے انقلابات کا زمانہ لد چکا ہے، اس لیے کہ یہ جاگیردارانہ معیشت کا دور نہیں ہے۔ اب تو صنعتیں چند دنوں کے بحرانی حالات سے تباہ ہوسکتی ہیں، سرمایہ دار تو اپنا سرمایہ سمیٹ کر کہیں اور منتقل ہوجاتا ہے لیکن غریب اور درمیانے طبقے کے گھر کا چولہا بُجھ جاتا ہے اور اس کی کمر بالکل ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ چنانچہ تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں اور انقلاب کی مالا جپنے والوں سے یہی عرض ہے کہ مسلسل جدوجہد اور جمہوری نظام کے تسلسل سے ہی تبدیلی کا راستہ نکل سکتا ہے۔