جنوبی پنجاب کے مسائل کا حل الگ صوبہ ہی ہے؟
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن نے نئے صوبے کا نام بہاولپور جنوبی پنجاب رکھنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ جبکہ مجوزہ بل کو کل بروز چھبیس جنوری، حتمی شکل دے کر پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا۔
کل اسلام آباد میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن کا اجلاس سینیٹر فرحت اللہ بابر کی صدارت میں ہوا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں نئے صوبے کا نام ‘بہاولپور جنوبی پنجاب’ رکھنے پر اتفاق ہوگیا۔ کمیشن نے میانوالی اور بھکر کو بھی نئے صوبے میں شامل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اجلاس میں، ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے چودہ اراکین پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔ ارکان نے تجویز دی کہ نئے صوبوں کے لیے پانی کے مسئلے پر ارسا حکام سے بریفنگ لی جائے اور کمیشن جھنگ اور ساہیوال کے نمائندوں کا مؤقف بھی سنے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے رکن اور وفاقی وزیر مملکت برائے پیداوار خواجہ شیراز کا کہنا تھا کہ ہمیں پانی کے وسائل کی تقسیم قبول ہے، نہ ہی ہم بیراجوں کی تقسیم قبول کریں گے۔ محسن لغاری نے تجویز دی کہ نئے صوبے کا دارلحکومت ملتان اور گورنر ہاؤس بہاولپور میں ہونا چاہیے۔ قیوم جتوئی نے نئے صوبے کا نام بہاولپور رکھنے کی تجویز دی جسے کمیشن نے مسترد کردیا۔
پارلیمانی کمیشن کے اجلاس کے بعد کمیشن کے رکن کامل علی آغا نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میانوالی اور بھکر کو نئے صوبے میں شامل کرنے سے متعلق مسلم لیگ قاف کا مطالبہ بھی مان لیا گیا ہے۔
کمیشن کے چیئرمین فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کے لئے آئین میں سات سے آٹھ ترامیم کی تجویز ہے۔ اس حوالے سے آئینی ترمیم بل جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
پیپلزپارٹی کے وہاڑی سےقومی اسمبلی کے رکن محمود حیات خان ٹوچی نے پارلیمانی کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں اردواور پنجابی بولنے والوں کی بھی بہت بڑی تعداد مقیم ہے۔
بدھ کے روز جب وفاقی وزیر برائے قانون فاروق ایچ نائیک سے رابطہ کیا گیا تھا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی وزارت نے جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کی تشکیل کے سلسلے میں ایک ترمیمی بل کا ڈرافٹ مذکورہ کمیشن کے حوالے کردیا ہے۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کمیشن کی کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا ہےاور اس کی جانب سےپہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے کہ وہ اس کمیشن کی سفارشات کو قبول نہیں کریں گے۔ پارٹی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمانی عمل کو برباد کردینا چاہتی ہے جو نئے صوبے کی تشکیل کے ضروری ہے۔ 'نئے صوبے کی تشکیل اگلے الیکشن کے حوالے سے صرف سیاسی مفاد حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے'۔
کمیشن کے ایک رکن متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی پارٹیاں اتحاد اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے لوگوں کی مشکلات کو پیش نظر رکھیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن عبدالقادر گیلانی نے پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے کمیشن کی کارروائی کے بائیکاٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر پنجاب اسمبلی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو نیا صوبہ ایک مہینے میں بن سکتا ہے۔کمیشن اپنا کام کررہا ہے اور لوگ ازخود یہ فیصلہ کرلیں گے کہ کس نے کیا کردار ادا کیا ۔’
جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کی تحریک نئی نہیں ہے۔ سرائیکستان کے نام سے یہ تحریک ترقی پسند فکر کے حامل رہنما تاج محمد خان لنگاہ نے برسوں پہلے شروع کی تھی۔ انہیں نئے صوبوں کےقیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن کے لیے بنائی گئی ماہرین کی ایک کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال چوبیس دسمبر کو ماہرین کی اس کمیٹی نے بریفنگ کے دوران کمیشن کو جنوبی صوبے کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ اس کمیٹی میں تاج محمد لنگاہ کے علاوہ خیر محمد بدھ اور رفعت الرحمان رحمانی شامل ہیں۔
پاکستان سرائیکی پارٹی کے سربراہ تاج محمد لنگا نے کمیشن کو اہم دستاویزات بھی پیش کی تھیں۔ جب جنوبی پنجاب میں مذہبی عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھیں اور متواتر دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے تھے تو تاج محمد لنگاہ نے ان واقعات کو سرائیکی صوبہ تحریک کی آواز کو دبانے کی ایک کوشش قرار دیا تھا۔
بی بی سی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ‘جنوبی پنجاب میں جو اچانک دہشت گردی کے حوالے سے بات کی جارہی ہے، اس کی اصل وجہ سرائیکی صوبے کے لیے جاری تحریک ہے۔ہماری جمہوری پر امن تحریک کو دبانے کے لیے یہ شوشا چھوڑا گیا ہے کہ یہاں دہشت گردی کا خطرہ ہے، یہاں فوجی آپریشن ہونا چاہئیے۔ میرے خیال میں اس کے پیچھے پنجاب کی حکومت کا ہاتھ ہے۔’
لیکن تاج محمد لنگاہ کی بات پر پوری طرح یقین کرنا اس لیے مشکل ہے کہ جنوبی پنجاب میں شدت پسند گروہ اپنی جڑیں کافی عرصہ پہلے سے مضبوط کرچکے ہیں اور ان کا دائرہ اثر مسلسل پھیلتا بھی جارہا ہے۔
معروف عسکری تجزیہ نگارعائشہ صدیقہ نے ڈان میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں تحریر کیا تھا: ‘پنجاب میں ایک مختلف قسم کی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی پائی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کا قصہ بھی ایک طرح سے سوات جیسا ہی ہے، جہاں سلفیت آہستہ آہستہ مضبوط ہورہی ہے اور عسکریت پسندی جڑ پکڑ رہی ہے۔ اگرچہ تبدیلی کا عمل 1947ء سے پہلے سے جاری ہے لیکن 1980ء کا عشرہ وہ زمانہ ہے جب واضح طور پر انتہا پسند نظریات اور عسکریت پسندی اس علاقے میں متعارف کرائے گئے۔’
عائشہ صدیقہ کے مطابق ‘ضیاءالحق نے دینی مدارس کھولنے کی حوصلہ افزائی کی جو اس علاقے کے روایتی مدرسوں ( جو بالعموم خانقاہوں سے منسلک تھے) کے برعکس سلفی عقائد کے تھے۔ بعد کے سالوں میں جنوبی پنجاب کشمیر کی آزادی کے لیے مجاہدین کی بھرتی کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ تبلیغی جماعت اور کٹر عقائد والے مدارس کے زور پکڑنے کے بعد میں عسکریت پسند گروپوں کے لیے راہ ہموار ہوتی گئی۔’
وہ مزید بیان کرتی ہیں کہ‘اس خطے کے اندر عسکریت پسندی کے فروغ میں ریاستی مدد بھی شامل حال رہی ہے اور یوں اس کو پنپنے میں خاصی مدد ملتی رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور عسکریت پسند گروہوں میں بالعموم ایک رابطہ یا مفاہمت قائم رہی ہے کیونکہ بیشتر سیاستدان عسکریت پسندوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ 1993ء کے الیکشن کے بعد سپاہ صحابہ پاکستان اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت یا 2008ء کے الیکشن کے دوران مسلم لیگ نون اور سپاہ صحابہ کےمابین ڈیل، بڑی سیاسی جماعتوں اور عسکریت پسندوں کے تعلقات کی مثالیں ہیں۔ جبکہ آج کل جنوبی پنجاب میں سپاہ صحابہ مسلم لیگ نون کی حمایت کررہی ہے۔’
تاج محمد لنگاہ کی طرح جنوبی پنجاب میں شدت پسندی اور عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی خبروں کو رد کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خطہ صوفی بزرگوں کا مرکز رہا ہےچنانچہ اس خطے میں شدت پسندی جنم نہیں لے سکتی۔
اس خیال کی حمایت کرنے والوں میں، دانشور اور مفکر ہی نہیں بہت سی حکومتی شخصیات بھی شامل ہیں۔ عائشہ صدیقہ اس ضمن میں کہتی ہیں کہ ‘یہ خیال ایک حد تک تو درست ہو سکتا ہے تاہم زمینی حقائق اس سے سوفیصد مطابقت نہیں رکھتے۔’
یوں تو صوفیانہ افکار میں وحدت نوع انسانی پر زور دیا جاتا ہےاور امن و آشتی کا پرچار کیا جاتا ہے لیکن صوفیانہ تعلیمات غربت، پسماندگی، طوائف الملوکی اور حکمرانوں کے ظلم و ستم جیسے عناصر سے نمٹنے کے لیے کوئی راستہ نہیں دکھاتی، جو شدت پسندانہ افکار کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ‘صوفیانہ تعلیمات کی ترویج سے مذہبی شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے سامنے کسی حد تک بندھ باندھا جا سکتا ہے۔’
جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ نظام اپنے تمام ظلم وستم کے ساتھ قائم ہے۔ بہت سے جاگیردار گھرانے صدیوں سے یہاں اپنا اقتدار قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کا محض سیاسی اثر و رسوخ ہی نہیں ہے بلکہ کئی ایک گھرانوں میں روحانی سلسلوں کی گدی نشینی بھی چلی آرہی ہے۔