جب جب بھی پاکستانی حکومتیں انڈیا کے ساتھ متنازعہ معاملات کے کسی متفقہ اور پُرامن حل تک پہنچنے والی تھیں کہ سرحد کے اِس جانب سے یا پھر اُس جانب سے کچھ ایسا کردیا جاتا کہ امن کی باتیں کرنے والی زبانیں بھی تلخ بیانی پر اُتر آتیں۔ مثال کے طور پر ممبئی حملہ عین اُس وقت ہوا جب کہ پاکستان کی نوزائیدہ جمہوری حکومت ہندوستان کے ساتھ امن معاہدے کی خواہشمند تھی اور اس حملے کے نتیجے میں وہ سارا معاملہ تلخیوں کی وجہ سے پس پردہ چلا گیا۔ حال ہی میں دیکھیے کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین ویزا پالیسی میں کس حد تک نرمی کی گئی اور یہی نہیں بلکہ اس ماہ کی ابتداء میں پاکستانی افواج نے پہلی مرتبہ اپنی فوجی کاروائیوں کی ترجیحات میں تبد یلی لاتے ہوئے گزشتہ گیارہ برسوں سے جاری دہشت گردی کے باعث ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو انڈیا سے بڑا دشمن قرار دیا ۔
ڈان اخبار کے مطابق گرین بک میں نئی فوجی حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ پاک، افغان مشترکہ سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں مسلح مخالفین کی جاری کاروائیوں اور پاکستانی شہریوں نیز سیکورٹی تنصیبات پر مسلح گروہوں کے حملوں کو پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ گرین بک، پاکستانی عوام میں بھی تقسیم کی جائیگی، اور ایک مناسب وقت میں آرمی ویب سائٹ پر بھی رکھی جائے گی۔
لیکن ابھی اس بات کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ سرحد پر اچانک شروع ہونے والی جھڑپوں نے ان ساری چیزوں کو پس پشت ڈال دیا اور تلخ نوائی اس قدر بڑھ گئی کہ پاکستان کے دورے کے خواہشمند من موہن سنگھ نے بی بی سی کے مطابق یہ بیان دیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر دو بھارتی فوجیوں کے قتل سے بھارت میں شدید غم و غصہ ہے اور اسلام آباد کو چاہیے کہ اب وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ اس حوالے سے مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے جوابی تلخ بیانی سے حتی الامکان گریز کیا ہے۔
سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تلخیوں کا پاکستان کے ان لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے بعض ثقافتی وفود کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور ویزا کی نرم پالیسی کے عملدرآمد میں بھی تعطل پیدا ہوگیا ہے۔
شندے کے بیان کے ساتھ ہی سمجھوتہ ایکسپریس میں بم رکھنے اور دھماکے کرنے کے ملزم کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس مین اس نے اعتراف کیا ہے کہ ہندو مذہبی انتہا پسند جسٹس راجندر سچر کو ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ جسٹس سچر کی سربراہی میں ایک کمیشن نے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی، سیاسی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بہت پسماندہ ہے اور وہ خصوصاً تعلیم کے معاملے میں انڈیا کے نچلی ذات کے لوگوں سے بھی پیچھے ہیں۔
انڈیا میں شدت پسند جماعتوں نے سشیل کمار شندے کے مذکورہ بیان پر شدید ردّعمل ظاہر کیا ہے، ان جماعتوں کے رہنما چراغ پا ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ شندے کے اس بیان پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی قوم سے معافی مانگیں۔ جبکہ یہاں پاکستان کی شدت پسند مذہبی جماعتوں کو گویا ایک سنہری موقع ہاتھ لگ گیا ہے کہ وہ ہندو اور ہندوستان کو جی بھر کے لعن طعن کرسکیں۔ حالانکہ یہ دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے گروہ ہیں جو اس خطے کے دونوں بڑے مذاہب میں موجود ہیں۔ ان کا کام شروع سے ہی یہی رہا ہے کہ آپسی اختلافات کو ہوا دی جائے اور خطے میں تناؤ کی صورتحال کو قائم رکھا جائےکہ اس سے ہی ان کی دال روٹی چلتی ہے اور پیٹ پوجا کا سامان ہوتا ہے۔ جہاں امن کی باتیں شروع ہوئیں اور تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کیا جانے لگا تو عین اسی وقت پر ایسا کچھ ہوجاتا ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی تمام کوششوں پر پانی پھر جاتا ہے، اور پھر آئندہ جب بھی یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پھر بالکل نئے سرے سے سب کچھ شروع کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان دونوں ممالک کے مابین امن سے ہی خطے کا امن وابستہ ہے، جہاں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان دونوں ممالک میں انسانوں کی اکثریت ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہورہی ہے، جو قابل علاج ہیں۔
ہم آخر میں اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ دونوں ممالک کے ایسے لوگ جو خطے سے غربت، بھوک اور جہالت کا خاتمہ چاہتے ہیں، انہیں اس حوالے سے مشترکہ طور پر عملی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا، ورنہ دونوں ممالک میں شدت پسند گروہ لوگوں کو اپنا ذہنی غلام بنا کر امن اور ترقی کی راہ میں یونہی رکاوٹیں کھڑی کرتے رہیں گے۔