پاکستان

آخر قاتل کون ہے؟

بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے متعدد تحقیقاتی رپورٹوں اور کتاب کا احوال۔

پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی ایک سے زائد انٹیلیجنس ٹیمیں اور ادارے مفصل تحقیقات کر چکے ہیں، تاہم اب تک کوئی بھی رپورٹ یا کتاب قتل کی سازش میں ملوث عناصر کو منظر عام پر لانے میں ناکام رہی ہے۔

ذیل میں اس واقعہ پر چند رپورٹس، ایک مضمون اور کتاب کا کچھ احوال قارئین کی معلومات کے لیے پیش ہے۔

جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں کام کرنے والے نگراں سیٹ اپ نے ستائیس دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پہلی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔

بعد ازاں، ٹیم کی تیار کردہ یہ ابتدائی رپورٹ وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال چیمہ کے ذریعے منظر عام پر آئی۔

چیمہ نے بتایا کہ راولپنڈی میں جلسہ گاہ کے باہر ہونے والے دھماکے کی شدت سے بینظیربھٹو کا سر ان کی جیپ کی چھت پر موجود لیور پر ٹکرایا تھا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوئیں اور ان کی موت کا سبب کھوپڑی پر لگنے والا زخم تھا۔

انہوں نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایک میڈیکل رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جو راولپنڈی میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مصدق خان نے تیار کی تھی۔

اس میڈیکل رپورٹ میں بھی موت کی وجہ سن روف لیور سے لگنے والے زخم کو قرار دیا گیا۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر مصدق اس رپورٹ سے پہلے کہہ چکے تھے کہ بینظیر بھٹو گولی کے زخم سے ہلاک ہوئی تھیں۔

بریگیڈیئر چیمہ پریس کانفرنس کے دوران ایک ٹیلی فون کال کی ریکارڈنگ بھی منظر عام پر لائے جس میں ان کے مطابق، بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے پاکستان تحریک طالبان کے اُس وقت کے سربراہ بیت اللہ محسود کی گفتگو ریکارڈ تھی۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ رپورٹ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ آٹھ فروری 2008 میں پیش کی گئی۔

چار صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا کہ بینظیر بھٹو کی موت دھماکے کی شدت سے ان کے سر پر لگنے والے گہرے زخم سے ہوئی۔

تاہم اسی رپورٹ میں برطانیہ کی وزارت داخلہ کے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر نیتھانیل کیری نے کہا کہ وہ بینظیر بھٹوکی گردن یا جسم کے اوپری حصے میں گولی کے زخم کو حتمی طور پر خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے۔

خیال رہے کہ اُس وقت کی حکومت نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو صرف موت کی وجوہات جاننے کا مینڈیٹ دیا تھا۔

تاہم ٹیم کی جانب سے تحقیقات کے نتائج پوسٹ مارٹم رپورٹ اور جائے وقوعہ کی فرانسک جانچ کے بغیر نامکمل نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ پندرہ اپریل 2010 میں جاری ہونے والی اس رپوٹ میں کوئی تہلکہ خیز انکشاف تو سامنے نہیں آیا لیکن اس میں راولپنڈی پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور اس وقت کی حکومت کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مشرف حکومت بینظیر بھٹو کی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ تھی لیکن وہ یہ معلومات بینظیر بھٹو اور صوبائی حکام کو فراہم کرنے سے قاصر رہی۔

رپورٹ میں جائے وقوعہ  کی پانی سے دھلائی اور وہاں سے شواہد جمع کرنے میں ناکامی پر راولپنڈی پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ خفیہ اداروں اور دوسرے سرکاری عہدے داروں نے واقعہ کی تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالیں۔

کمیشن کا ماننا تھا کہ پولیس افسران خفیہ ایجسنیوں کی مداخلت کے خوف کی بنا پر بے لاگ تحیقات کرنے کے بجائے غیر یقینی صورت حال کا شکار رہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے چند عناصر کے علاوہ متعدد حلقوں سے خطرات لاحق تھے۔

کمیشن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکورٹی انتطامات کو بھی ناکافی قرار دیا۔

پنجاب پولیس رپورٹ پنجاب پولیس کی جانب سے اقوام متحدہ کے کمیشن کو فراہم کی جانے والی رپورٹ کے مطابق بینظیر بھٹو کے قتل سے ایک روز قبل بارہ عسکریت پسند راولپنڈی پہنچے تھے۔

سابق وزیر اعظم کے قتل میں ملوث چار شدت پسندوں کا تعلق مولانا سمیع الحق کے زیر انتظام اکوڑہ خٹک میں واقع دارالعلوم حقانی سے تھا۔

واضع رہے کہ جمیعت علمائے پاکستان کے مولانا سمیع الحق طالبان کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔

اس رپورٹ میں پاکستان تحریک طالبان کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ بارہ میں سے تین شدت پسند ہلاک ہو گئے جبکہ پانچ کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔

واقعہ پر ایک مضمون اور کتاب کا احوال صحافی اوون بینیٹ جونز نے اپنے ایک مضمون میں بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے متعدد سوال اُٹھائے ہیں۔

انہوں نے اپنے مضمون میں پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے قبائلی علاقوں میں موجود شدت پسندوں کے ساتھ روابط کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مشہورعسکریت پسند قاری سیف اللہ اختر کا بھی تفصیلی ذکر کیا۔

قاری سیف اللہ پر الزام ہے کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو گرانے کی کوشش کی تھی۔

وہ مبینہ طور پر اکتوبر 2007 میں سابق وزیر اعظم کی پاکستان واپسی پر ہونے والے بم حملے میں بھی ملوث سمجھے جاتے ہیں۔

جونز نے اپنے مضمون میں پی پی پی کے کارکنوں کا بھی حوالہ دیا، جن کا ماننا ہے کہ قتل کی منصوبہ بندی میں جنرل مشرف جیسی ریاستی شخصیات شامل ہیں۔

انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے جڑی افواہوں کو بھی اپنے مضمون میں جگہ دی۔

پاکستان صحافی عامر میر نے اپنی ایک کتاب ' بھٹو مرڈر ٹرائل: فرام وزیرستان ٹو جی ایچ کیو تک' میں فوجی اسٹیبلشمنٹ اور شدت پسندوں کے درمیان  تعلقات کو تفصیل سے بتانے کی کوشش کی ہے۔

میر کا کہنا ہے کہ خواہ جنرل مشرف نے بینظر بھٹو کے قتل کے احکامات دیے ہوں یا نہیں، لیکن وہ جانتے تھے کہ قتل کے سنجیدہ منصوبے پر عملدرآمد ہونے جا رہا ہے اور وہ سابق وزیر اعظم کو مناسب سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

میر نے پی پی پی کی موجودہ قیادت کو واقعہ سے بری الذمّہ قرار دیا اور کہا کہ صدر زرداری فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کی وجہ سے اپنی بیوی کے قتل کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔