طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں الجھاوے میں ہیں کہ اس صورتحال سے کس طرح سے نمٹا جائے۔ ابتدائی طور پر حکومت کا موقف وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے سامنے آیا، جس میں ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مقتول طالبان لیڈر کو شہید قرار دے دیں۔ اور جیسے حکیم اللہ محسود امن کے پیغامبر ہوں۔
تحریک انصاف کے رہنما عمران خان طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انہوں نے طالبان کی کاروائیوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ اس واقعہ پر ان کا اظہار افسوس اور ڈرون حملے روکنے کے لیے نیٹو کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی سامنے آئی۔
مولانا فضل الرحمان دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے بات کو اور بھی اونچے سروں میں لے گئے اور فرمایا کہ 'امریکہ کے ہاتھوں اگر کتا بھی مرے تو وہ شہید ہے'۔ لیکن ان کے خلاف اس طرح کا طوفان کھڑا نہیں ہوا۔
طالبان رہنما کی ہلاکت کی تشریح کے دوران ایک نئی مذہبی اور سیاسی اصطلاح کرنسی بن گئی۔ اور مذہب کی آڑ میں سیاست کا بازار ایک بار پھر گرم ہوگیا۔ 'کون شہید ہے، کون نہیں' کے سرٹیفکیٹ بننا اور بٹنا شروع ہوگئے۔
جماعت اسلامی نے مذہبی نعرے پر دیگر مذہبی جماعتوں کی مقابلے بازی میں خود کو پیچھے محسوس کیا۔ جماعت کے امیر منور حسن نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں آگے بڑھ کر بات کی کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے جس پر اینکر پرسن نے حیرت سے پوچھا کہ؛
"اگر حکیم اللہ شہید ہیں تو دہشگردی کے خلاف جاری جنگ میں مارے جانے والے پاکستان کے فوجی شہید ہیں یا نہیں؟"
منورحسن صاحب اس اچانک وار کے لیے تیار نہیں تھے۔ بہرحال انہیں کہنا پڑا کہ امریکہ کے خلاف لڑنے والے شہید ہیں۔ تو امریکی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے لڑنے والے کیسے شہید ہوسکتے ہیں؟ یہ براہ راست اشارہ پاک افواج کی طرف تھا۔ کیونکہ پاکستان دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے۔
مولانا فضل الرحمان بھس میں چنگاری ڈال کر بگلا بھگت بن کر کونا پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اور منورحسن بھری کشتی میں اکیلے بھاری لگنے لگے۔
بس پھر کیا تھا، جماعت اسلامی عوام، فوج، سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کی تنقیدی توپوں کے نشانے پر آگئی۔ شاید ہی کوئی ایسی سیاسی جماعت ہو جس کے سربراہ نے منور حسن کے اس بیان کی مذمت نہ کی ہو۔ سندھ اسمبلی نے تو قرارداد بھی منظور کرلی۔ اچھے بھلے معتبر سیاستداں یہ کہہ رہے ہیں کہ منور حسن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے۔
پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ نے انتہائی سخت مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا۔ اس بیان میں جماعت اسلامی کی ماضی کی خدمات اور فوج سے قربت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے فوری طور پر لاہور میں اپنا اجلاس طلب کیا اور اس بحث میں جاۓ بغیر کہ 'شہید کون ہے اور کون نہیں'؟ یہ موقف اختیار کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا حق نہی۔
یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تمام عرصہ ماسوائے ایوب دور کا کچھ حصہ، فوج کا ساتھ دیا۔ مشرقی پاکستان میں اس کا رول ابھی تازہ تھا کہ بنگلہ دیش میں اس جماعت کے بعض رہنماؤں کی سزاؤں نے مزید تازہ کردیا ہے۔
جب ضیاء الحق نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو جماعت اسلامی نے آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دیا اور مارشل لا حکومت کا حصہ بنی۔ سرد جنگ کے زمانے میں جماعت اسلامی کی امریکہ نوازی کے خلاف نعرے گونجتے رہے۔
سرد جنگ جب عروج پر پہنچی اور اس کا آخری مورچہ افغانستان بنا تو وہاں امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کو استعمال کیا، اس وقت جماعت اسلامی اس نام نہاد "جہاد" میں اہم اتحادی تھی جو کہ دراصل امریکا کی پراکسی جنگ تھی۔ اس جہاد کی آڑ میں امریکہ کے ساتھ مل کر لڑی جانے والی پراکسی جنگ نے دنیا بھر کے شدت پسندوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔
آج پاکستان سیاسی، معاشی، امن و امان، دہشتگردی اور غیر ملکی دباؤ کے حوالے سے جو کچھ بھگت رہا ہے وہ اس افغان جنگ یا جہاد کی ہی دین ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جماعت اسلامی نے اپنا سیاسی رخ تبدیل کیا جس کی وجہ سے بعد میں یہ کردار جماعت اسلامی سے لے کر مولانا فضل الرحمان اور بعض دیگر مذہبی جماعتوں اور گروہوں کو دیا گیا۔ شاید جماعت اسلامی کچھ زیادہ سیاسی بن رہی تھی اور اپنا ایجنڈا شامل کر رہی تھی۔
دوسسری طرف طالبان منور حسن کے بیان کو قبل تعریف قرار دے رہے ہیں۔ عام خیال ہے کہ بعض دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں طالبان کی حامی ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں کھل کر ان کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جماعت اسلامی کھل کر بات کرکے شہادت کے نعرے کے اس مقابلے میں پھنس گئی ہے۔ اب یہ ہڈی نہ اگلنے کی ہے نہ نگلنے کی۔
فوج کا منورحسن کے بیان پر موقف صرف جماعت اسلامی کے لیے ہی نہیں طالبان سے ہمدردی رکھنے والی دوسری جماعتوں کے لیے بھی سبق لگتا ہے۔ اب طالبان سے مذاکرات کے لیے سرگرم نواز شریف کو بھی اس موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا جس کی تصدیق وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں طالبان پر بحث کے اختتام کے موقعہ پر کیا۔
انہوں نے چھ دن تک اس موضوع پر بحث کرنے والے منتخب ایوان کو بتایا کہ اب مذاکرات کی کوششیں روک دی گئی ہیں تین چار ہفتے بعد صورتحال کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے 'کون شہید ہے، کون نہیں' کے جھگڑے کو ملک کے لیے 'زہر' قرار دیا۔
جماعت اسلامی کا فوج کے بیان پر موقف کہ یہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے بڑی حد تک درست لگتا ہے۔ لیکن جماعت اسلامی ایک ایسی جنگ میں اپنے پسند کے ہیرو چن رہی ہے جس نے ملک کو ہر حوالے سے تباہ کیا۔ جو کہ مناسب نہیں۔ مزید یہ کہ اس کا حالیہ موقف ماضی کے موقفوں کے برعکس ہے ۔
ماضی میں جماعت اسلامی نہ صرف اس قسم کی مداخلت کی دعوت دیتی رہی ہے بلکہ اس کا حصہ بھی بنتی رہی۔ آج آخر کیوں اسکو یہ مداخلت بری لگ رہی ہے؟ کیا آنے والے وقتوں میں وہ اس موقف پر قائم رہے گی؟
حالیہ بحث صرف بحث نہیں۔ یہ ایک فکری اور حکمت عملی کا بحران ہے جو ریاست کے اداروں کے عمل اور حکمت عملی سے پھوٹ کر نکلا ہے اور اب ریاست کی فکری و حکمت عملی لکیروں کو از سرنو بیان کرنے کا تقاضا کر رہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال ایک مرتبہ مشرف دور میں بھی آئی تھی، لیکن اس فکر کی از سر نو تعریف نہیں کی گئی۔ اب ایک بار پھر اس نے سر اٹھایا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ جو ایک مخصوص قسم کی مذہبی فکر پھیلاتی رہی ہے اور ریاست کو بھی اسی ڈگر پر چلانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی اس پرانی پالیسی کو تبدیل کرے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ملکی تاریخ کا بیشتر حصّے میں فکری، سیاسی، مذہبی اور انتظامی و حکومتی معاملات پر عسکری کنٹرول رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہی 'جہاد' کا ایک ڈھانچہ بنایا جس کا کردار سرحدوں کی حفاظت کے بجائے نظریاتی بلکہ مذہبی سرحدوں کی حفاظت اور وسعت کرنا تھا۔
مذہبی سرحدوں کے اس تصور نے "مجاہدین" پیدا کئے جس سے جہاں ملک کے اندر بھیانک مسائل پیدا ہوئے وہاں دنیا میں پاکستان کی پہچان مسخ ہو کر رہ گئی۔ سیاست کو مذہبی چشمے سے دیکھنے اور کنٹرول کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم ایک نظریاتی دلدل میں گردن تک دھنس چکے ہیں۔ یہ تصور اب شدت پسندی میں بدل گیا ہے جو پورے ملک کو آئین، قانون جمہوریت، عدلیہ سے ہٹ کر زبردستی ملائیت کی ریاست میں تبدیل کرنے کے درپے ہے۔
وقت آگیا ہے کہ عوام اور ملک کے مفاد میں مذہب اور ریاست کو الگ الگ کیا جائے۔