حکیم اللہ محسود کون تھے؟
حکیم اللہ محسود تحریک کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے سربراہ تھے اور نیوز رپورٹس کے مطابق وہ جمعہ کو سمالیی وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
محسود پہلی دفعہ عوامی سطح پر اس وقت منظر عام پر آئے تھے جب انہوں نے پاک فوج پر انتہائی منظم طریقے سے بڑا حملہ کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق محسود کا اصلی نام ذوالفقار تھا اور حکیم اللہ ان کا فرضی نام تھا، امیر بننے سے قبل حکیم اللہ، تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر اور اپنے پیشرو بیت اللہ محسود کے محافظ تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے انتہائی ساتھی بن گئے۔
وہ امیر بننے سے قبل بیت اللہ محسود کے ترجمان بھی تھے اور اگست 2009 میں کیے گئے ڈرون حملے میں بیت اللہ کی ہلاکت کے بعد کالعدم تنظیم کے سربراہ مقرر ہوئے۔
تحریک طالبان کے سربراہ نے ابتدائی تعلیم ضلع ہنگو کے ایک گاؤں میں واقع مدرسے سے حاصل کی۔
تاہم ان کو طالبان میں اصل شہرت 2007 میں 300 پاکستانی فوجیوں کو اغوا کرنے کے بعد حاصل ہوئی تھی۔
محسود کو خیبر، اورکزئی اور کرم ایجنسی میں طالبان کا کمانڈر مقرر کیا گیا جہاں انہیں نیٹو سپلائی پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا تھا۔
2010 میں میں ان کی اردن کے شدت پسندوں کے ساتھ ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے افغانستان میں خود کش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں سات سی آئی اے اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
حکیم کی زیر قیادت ٹی ٹی پی نے پاکستان میں موجود دیگر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیے اور اتحاد کیا۔
طالبان کی جانب سے اب تک سب سے بہترین قائد قرار دیے جانے والے حکیم اللہ محسود ایک خطرناک اور ظالم رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے جو دیگر شدت پسندوں کے درمیان یکساں مقبول تھے۔
ان کی جائے وقوع کا علم نہ ہونے اور موت کے حوالے سے تنازع خبروں کی وجہ سے طالبان اور شدت پسندوں کی میں ان کی قدر میں اضافہ ہوا تھا۔
2009 میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں ان کی ہلاکت کے حوالے سے ایک خبریں منظر عام آئی تھیں جبکہ اس کے بعد ایک اور مرتبہ انہیں مردہ قرار دینے کی کوشش کی گئی لیکن دونوں ہی مرتبہ یہ خبریں غلط ثابت ہوئیں۔
امریکا کی نظر کالعدم تنظیم کے سربراہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سپر پاور نے ان کی گرفتاری کے حوالے سے اطلاع دینے والے کے لیے پچاس لاکھ ڈالر انعام کا اعالن کیا تھا۔