اسلام آباد: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کل بروز بدھ نو اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اقلیتی ووٹروں اور انتخابی امیدواروں کو درپیش مسائل کے ساتھ منصفانہ سلوک نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈائریکٹر آئی اے رحمان نے ”مذہبی اقلیتیں انتخابات میں۔ عملی طور پر نہیں، قانون کے تحت برابر “ کے عنوان کے تحت ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل میں اقلیتوں کی شرکت کو بڑھانے کے لیے نظام کو بہتر بنانے اور اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اضافی کوششوں کی ضرورت ہے۔
آئی اے رحمان نے کہا کہ اقلیتی برادری کی جانب سے بے ضابطگیوں کی بہت سی رپورٹیں الیکشن کمیشن کو جمع کرائی جاچکی ہیں، لیکن ان پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔
مشترکہ انتخابی نظام کی بے حد تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کو اب بھی اس سلسلے میں پختگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور عام نشستوں پر مزید اقلیتی امیدواروں کو نامزد کیا جانا چاہئیے۔ ایسا محض ان انتخابی حلقوں میں ہی نہیں کرنا چاہئیے جہاں اقلیتوں کی معقول تعداد موجود ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی یہ رپورٹ قومی اسمبلی کے چھ حلقۂ انتخاب کے مطالعے پر مبنی ہے، جن میں سے پانچ سندھ میں اور ایک پنجاب میں ہے۔
اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ووٹنگ کا طریقہ کار ظاہر کرتا ہے کہ اقلیتیں سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہیں، نہ کہ مذہبی بنیادوں پر۔ لیکن تعصب، دھمکیاں اور بنیادی مسائل جن کا اقلیتی اراکین کو سامنا کرنا پڑتا ہے، بھی رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہمیں بعض علاقوں سے ایسی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں کہ جہاں مذہبی عناصر کی جانب سے ایسے پمفلٹس تقسیم کیے گئے جن میں کہا گیا تھا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے عام نشست کے امیدوار کو ووٹ نہ دیا جائے۔ لیکن حکام کی جانب سے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
اس رپورٹ میں سیکیورٹی کے مسائل کی بھی نشاندی کی گئی ہے، جن کا سامنا اقلیتی برادری کے امیدواروں کو کرنا پڑتا ہے، لیکن آئی اے رحمان نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر معاملات مقامی سطح کے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مخالفت بڑی حد تک مذہبی بنیادوں کے بجائے طبقاتی بنیادوں پر تھی۔ یہ اطلاعات ملی تھیں کہ اوپری طبقے کے ہندو نچلے طبقے کے ہندوؤں کو سیاسی طورپر سرگرم ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک سینیئر رکن حسین نقی نے کہا کہ اگر اس صورتحال کو تبدیل کرنا ہے، تو اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اقلیتوں کے لیے صرف ایک لائن کا بیان دیا تھااور وہ یہ تھا کہ، الیکشن کمیشن پورے پانچ سال اقلیتوں کے بارے میں سوچے گا۔
حسین نقی نے ملک کے پالیسی سازوں پر اس حوالے سے بھی تنقید کی کہ وہ تاریخ میں تحریف کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کی کتابوں سے قیام پاکستان میں مسیحیوں کا بنیادی کردار نکال دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حق میں صوبے کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے پنجاب کے مسیحیوں کے بنیادی کردار کو فراموش کردیا گیا ہے، یہ بہت بُری روایت ہے، اور ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا۔