پاکستان

کسان اتحاد کا مطالبات پورے نہ ہونے پر اسلام آباد کی جانب ’احتجاجی مارچ‘ کا اعلان

گندم اور گنے کی امدادی قیمت میں اضافہ کیا جائے، آبپاشی اخراجات میں کمی اور سبسڈی فراہم کی جائے، 2024 زراعت کیلئے تباہ کن سال تھا، چیئرمین خالد حسین

کسان اتحاد نے خبردار کیا ہے کہ اگر گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ نہ کیا گیا اور حکومت پنجاب نے پیداواری لاگت میں کمی نہ کی تو اسلام آباد کی جانب ’احتجاجی مارچ‘ کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کسان اتحاد کے مرکزی چیئرمین خالد حسین نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے کسانوں کا استحصال کرنے کے لیے فلور ملز کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جو زرعی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔

کسان رہنما اس بات کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے کہ حکومت، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تمام سبسڈیز ختم کرنے اور آزاد منڈی کی معیشت کو فروغ دینے کے معاہدے کے تناظر میں گنے اور گندم کی کم از کم قیمتوں کا اعلان نہیں کر رہی ہے۔

مرکزی صدر میاں عمیر مسعود کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ گندم کی امدادی قیمت بڑھا کر 5 ہزار روپے اور گنے کی امدادی قیمت 400 روپے فی من کی جائے۔

چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین نے خبردار کیا کہ اگر مطالبات پورے نہ کیے گئے تو ملک بھر کے کسان اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کریں گے اور دارالحکومت میں دھرنا بھی دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 2024 پاکستان کی زراعت کے لیے تباہ کن سال تھا، اور کسانوں کو گندم کی امدادی قیمت میں کمی سمیت بہت سی ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

چیئرمین کسان اتحاد نے کہا کہ پنجاب حکومت نے گنے کی قیمت مقرر نہیں کی، جب کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے گنے کی قیمت 400 روپے فی من خریدنے کا اعلان کیا لیکن ان کے ارکان صرف 300 سے 325 روپے فی من کی پیشکش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیوب ویلوں کے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے، اور آبپاشی کے لیے پانی کے نرخ 300 روپے فی گھنٹہ سے بڑھ کر 5000 روپے ہوگئے ہیں۔

کسان رہنماؤں نے بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے کم معیار کے بیجوں اور یوریا کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے لیے بھی حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

خالد حسین نے کہا کہ ان تمام عوامل کی وجہ سے کسان کے لیے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ حکومت زرعی شعبے کو کوئی سبسڈی بھی فراہم نہیں کر رہی۔