دنیا

افغانستان: خواتین کی طبی تعلیم پر پابندیاں، دوران زچگی شرح اموات بڑھنے کا خدشہ

مڈوائفری اور نرسز، ڈاکٹرز کے بازوؤں کی طرح ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی پرندے کے پر نہ ہوں تو وہ اڑ نہیں سکتا، افغانستان پہلے ہی صحت کی سہولیات کی کمی کا شکار ہے، ماہرین

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اپنا نجی ہسپتال چلانے والی ڈاکٹر نجم السما شیفاجو نے پیش گوئی کی ہے کہ خواتین کی تعلیم پر تازہ پابندیوں کے بعد آئندہ ’3 سے 4 سال‘ میں زچگی کے دوران شرح اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر نے ملک بھر کے تربیتی اداروں میں مڈوائفری اور نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کر دی ہے، حالانکہ افغانستان پہلے ہی زچگی کے دوران ہونے والی اموات کے حوالے سے دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے۔

ڈاکٹر نجم السما شیفاجو نے کہا کہ ہم اس کا اثر بہت جلدی نہیں دیکھ سکتے لیکن 3 سے 4 سال بعد ہم دیکھیں گے کہ زچگی کے دوران اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ لوگ یقینی طور پر گھر میں ہی بچوں کی پیدائش کو ترجیح دیں گے لیکن پیچیدگیوں کا کیا ہوگا؟ آپریشن کی ضرورت ہوئی تو کیا ہوگا؟ پیدائش کے بہت سے طریقہ کار گھر پر نہیں انجام دیے جا سکتے۔

طالبان حکومت کی جانب سے دو سال قبل یونیورسٹیز میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد سے نجم السما شیفاجو ملازمت کے دوران خواتین کو مڈوائفری اور نرسنگ کی تربیت دے رہی ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ رضاکاروں کی کمی نہیں ہے، تاہم ہمارے پاس ہر خواہش مند خاتون کو سکھانے کی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مڈوائفری اور نرسنگ، ڈاکٹروں کے دو بازوؤں کی طرح ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی پرندے کے پر نہ ہوں تو وہ اڑ نہیں سکتا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے مطابق افغانستان کو پہلے ہی تربیت یافتہ ہیلتھ کیئر ورکرز، بالخصوص خواتین کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

طالبان حکومت کی جانب سے اب تک کوئی باضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا، لیکن وزارت صحت کے ذرائع اور تربیتی اداروں کے منیجرز نے رواں ماہ کہا تھا کہ انہیں خواتین کو کلاسز سے روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔

تباہ کن نتائج

2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے طبی تربیت کو محدود کرنا خواتین کی تعلیم کے خلاف تازہ ترین کارروائی ہے، جس کو اقوام متحدہ نے ’صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے ایک بیان میں کہا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین اور بچے ثقافتی طور پر حساس دیکھ بھال کے لیے خواتین طبی ورکرز پر انحصار کرتے ہیں، مستقبل میں صحت فراہم کرنے والوں کی پائپ لائن کاٹنے سے بہت سی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

تربیتی اداروں نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ خواتین مڈوائفری، نرسنگ، لیبارٹری کا کام، فارمیسی اور دندان سازی کے شعبے میں صحت کی دیکھ بھال کی مہارتیں سیکھتی رہیں، افغان وزارت صحت کے ذرائع کے مطابق نئی پابندیوں سے افغانستان میں 35 ہزار ایسی خواتین متاثر ہوں گی جو طبی تربیتی مراکز میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

افغانستان میں طبی تربیت فراہم کرنے والے عالمی ادارے ’ہلال احمر‘ کے ترجمان اچیلے ڈیپریس نے کہا کہ ہمیں پہلے سے ہی صحت کی دیکھ بھال کے کمزور نظام پر پڑنے والے اثرات پر تشویش ہے۔

افغانستان میں مصروف ترین زچگی کے ہسپتال چلانے والی عالمی غیر سرکاری تنظیم، ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس پابندی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، کیونکہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر صحت کی سہولیات کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں ایم ایس ایف کے نمائندے میکائیل لی پائی نے ایک بیان میں کہا کہ تعلیم یافتہ فی میل ہیلتھ پریکٹیشنرز کے بغیر صحت کی دیکھ بھال کا کوئی نظام موثر نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ایم ایس ایف کو پہلے ہی ایک ایسے ملک میں زچگی کے ماہرین کی کمی کا سامنا ہے جہاں شرح پیدائش زیادہ ہے، جہاں خواتین اکثر کم عمری میں شادی کے بعد بچے پیدا کرتی ہیں۔