پاکستان

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق

نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار کی چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات، مذاکرات پر اتفاق کے بعد برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے، ذرائع پیپلزپارٹی

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے معاملات کے حل کے لیے پی پی پی اور حکومتی کمیٹیوں کی ملاقاتوں پر اتفاق کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مسلم لیگ (ن) سے وعدے پورے نہ ہونے کے شکوے کو ایک ماہ گزرنے کے بعد دونوں اتحادی جماعتوں نے متنازع مسائل کے حل کے لیے کم از کم ایک ہفتے طویل مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

واضح رہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مختلف فورمز پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شکایت کی تھی کہ حکمران جماعت فیصلہ سازی میں پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیتی۔

ان شکایات کی روشنی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار کو چیئرمین پیپلزپارٹی سے ملاقات کرکے ان کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔

پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسحٰق ڈار نے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی موجودگی میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی۔

یہ ملاقات جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے ایک روز بعد ہوئی، جنہوں نے حکومت کو سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 پر فوری دستخط کرنے کی تنبیہ کی تھی، جو مدارس سے تعلق رکھتا ہے۔

ایک حکومتی ذریعے نے ڈان کو بتایا کہ حکومتی اتحاد کو خدشہ ہے کہ جے یو آئی (ف) کے احتجاج میں مرکزی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی بھی شامل ہوسکتی ہے جس نے گزشتہ ماہ وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کیا تھا جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے، مسلم لیگ (ن) کے رانا ثنااللہ نے بھی جے یو آئی (ف) کے سربراہ سے ملاقات کی۔

پیپلزپارٹی کے میڈیا سیل کے مطابق ملاقات کے دوران اتفاق کیا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان مسائل کے حل کے لیے پیپلزپارٹی اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان ملاقاتیں کریں گی۔

پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جامع مذاکرات پر اتفاق کے بعد برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ورچوئل مذاکرات 2 روز میں شروع ہوں گے اور اس کے بعد باقاعدہ مذاکرات شروع ہوں گے جو کم از کم ایک ہفتے تک جاری رہیں گے۔

پیپلزپارٹی کے خدشات

گزشتہ ماہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں اہم کردار ادا کرنے کے چند روز بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے ہم آہنگی کے فقدان پر حکومت پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت، عدالتی کمیشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مساوی نمائندگی کو یقینی نہ بنا کر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی حمایت سے اپنی حکومت بنائی، جس کے پاس قومی اسمبلی میں ووٹوں کی تیسری سب سے بڑی تعداد ہے۔

اگرچہ، پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ہے لیکن اس نے صدر پاکستان، چیئرمین سینیٹ اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز سمیت کئی آئینی عہدے حاصل کیے ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی سے بھی ملاقات کی جنہوں نے انہیں پشاور میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس سے آگاہ کیا جس میں 16 سیاسی جماعتوں نے شرکت کی تاہم پی ٹی آئی نے اس کا بائیکاٹ کیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ تاریخی کانفرنس ایک اہم اقدام ہے اور انہوں نے گورنر کو یقین دلایا کہ وہ امن کے قیام اور وفاقی حکومت کے ساتھ کے پی کے وسائل کے تنازع پر ان کے ساتھ ہیں۔