مخالفین کے خوف میں مبتلا ریاست رکاوٹیں کھڑی کرکے کب تک جگ ہنسائی کا سبب بنتی رہے گی؟
دارالحکومت کی ناکہ بندی، مال بردار کنٹینرز کی مدد سے راستے بلاک، ہائی ویز کی بندش، احتجاجی ریلیاں منتشر کرنا، اپوزیشن کے حامیوں کی گرفتاریاں، اپوزیشن رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے، میڈیا پر پابندیاں، موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز کی بندش اور سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات، ریاست آج کل مخالفین کے خلاف یہی حربے استعمال کررہی ہے۔ یہ سب ہتھکنڈے کس بات کی نشاندہی کرتے ہیں؟
یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی محاصرے کی ذہنیت کے متعلق بتاتے ہیں جہاں ریاست ہر وقت اپنے مخالفین کے خوف میں مبتلا رہتی ہے اور خود کو مستقل طور پر خطرے میں محسوس کرتی ہے۔ اسی خوف کی بنا پر وہ کبھی کبھار نہیں بلکہ ہر وقت ہی مخالفین کے خلاف سخت اقدامات کرتی ہے۔
سخت اقدامات یہ تاثر نہیں دیتے کہ حکومت مضبوط ہے۔ اس کے بجائے یہ حکومت کی کمزوری، خود اعتمادی کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ سب سے زیادہ یہ واضح کرتے ہیں کہ حکومت سیاسی چینلجز کو سیاسی طور پر حل کرنے میں کس حد تک ناکام ہے۔
کچھ حلقے یہ خیال ظاہر کریں گے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں اور ماضی میں بھی مخالفین کو دبانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ تاہم کچھ حلقے یہ بحث بھی کرسکتے ہیں کہ آج کے دور میں ہم جو سخت آمریت پسند کارروائیاں دیکھ رہے ہیں، ماضی کی جمہوری حکومتوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ریاست کے یہ اقدامات موجودہ ہائبرڈ اتحادی حکومت کے حوالے سے کیا اشارہ کرتے ہیں۔ جب اپوزیشن اور دیگر مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے حکومت زمینی حقائق کو نظرانداز کرے اور معمول کی بنیاد پر دارالحکومت کےگرد دیواریں کھڑی کرے تو اس سے کیا تاثر ملتا ہے؟
یہ عکاسی کرتا ہے کہ حکومت اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے کتنی بےچین ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ان کی حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں یا اس کی قانونی حیثیت متنازع ہے جس کی وجہ سے وہ مخالفین سے نمٹنے کے لیے صرف ریاست کی مشینری کا استعمال ہی کرسکتے ہیں۔ یہ سڑکوں، عدالتوں، پارلیمنٹ، میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا کو کنٹرول کرنے کی کوششوں سے اپنی پوزیشن کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ حکام کو جتنا زیادہ یہ لگتا ہے کہ انہیں معاملات کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرنی چاہئیں، وہ اپنے مقصد میں اتنے ہی کم کامیابی حاصل کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ایک مسئلے کو حل بھی نہیں کیا جاتا کہ دوسرا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔ ریاست جو بھی کامیابی حاصل کرتی ہے وہ وقتی ہوتی ہے جو یہ گارنٹی نہیں دیتے کہ وہ اپوزیشن کو دبانے یا تنقید ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ حکومت جس طرح اپنے گرد رکاوٹیں کھڑی کردیتی ہے، اس کے وسیع تر اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے گورننس، سیاست، معیشت متاثر ہوتی ہے اور یہ پاکستان کے لیے عالمی نظریے کو تشکیل دیتا ہے۔
محاصرے کی ذہنیت یا دارالحکومت کے گرد رکاوٹیں کھڑی کردینے سے ہوتا یہ ہے کہ حکمران اتحاد اپوزیشن میں اتنا مصروف ہے کہ یہ اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ نہیں دے پاتا۔ حکومت میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی توجہ مخالفین سے نمٹنے اور انہیں قابو میں کرنے میں صرف کررہی ہے۔
نتیجتاً زیادہ تر حکومتی وزرا اپوزیشن کے ’خراب رویے‘ سے متعلق بیانات دیتے نظر آتے ہیں جبکہ وہ اپنی پالیسیز اور خدمات کے حوالے سے کم ہی لب کشائی کرتے ہیں۔ اپوزیشن کو مات دینے کے لیے جنون کی حد تک اقدامات لینے سے حکومت کی کارکردگی کمزور ہوئی ہے۔
اسی محاصرے کی ذہنیت کے اپنے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ اسی اثنا میں حکمران اتحاد نے اداروں کی آزادی کو محدود کرنے اور جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کی مثال حکمران اتحاد کی جانب سے پارلیمنٹ کو اپنے مفادات کی منظوری کے لیے مہرے کے طور پر استعمال کیا جانا ہے۔ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندگان کے درمیان بحث نہیں ہوتی اور اپوزیشن رہنماؤں کی آوازوں کو دبانے کی بار بار کوششیں کی جاتی ہیں جو ہم سب تواتر سے دیکھتے ہیں۔ اسپیکر ہی حکمران اتحاد کے پیادے کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپوزیشن کے اراکین کو بات کرنے کا موقع نہیں دیتے جبکہ حکومت ٹی وی چینلز کو ’مشورہ‘ دیتی ہے کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کے پارلیمانی بیانات کو نشر نہ کریں یا انہیں سینسر کریں۔
26ویں آئینی ترمیم جیسی اہم آئینی ترمیم کو کسی پارلیمانی بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل نہ کرنا حکومت میں عدم تحفظ کے احساس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس طرح کے فیصلوں سے حکومت نے منتخب نمائندگان اور اپنی قانونی حیثیت پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی اداروں پر سے عوام کے اعتماد میں انتہائی درجے تک کمی واقع ہوئی ہے۔
خود کو تنہا کرنا اور دارالحکومت کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر دینے کی یہی ذہنیت ہے جس کی وجہ سے حکومت آزاد اداروں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتی ہے۔ اسی احساس کے تحت حکومت نے عدلیہ کی آزادی پر وار کیا۔ اسی خوف میں حکومت نے عدلیہ کو کمزور کرنے اور اسے ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کے لیے عجلت میں آئینی ترمیم منظور کی۔ عدالت کی جانب سے اپنے خلاف فیصلوں کے خوف کی وجہ سے اقتدار کی تقسیم کے بنیادی اصول کو نظرانداز کردیا گیا۔
بحران کا شکار معیشت پر بھی اس کے اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مسلسل شٹ ڈاؤن اور رکاوٹیں لگانے سے کاروباروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ان رکاوٹوں سے نہ صرف کام کے دن کم ہوتے ہیں بلکہ پیداوار اور برآمدی اشیا کی ترسیل میں بھی تاخیر ہوتی ہے جس کی بھاری اقتصادی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ پھر ہزاروں کی تعداد میں پولیس کی نفری کو سڑکوں پر تعینات کرنے اور مظاہرین کو مطلوبہ منزل تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کنٹینرز کی بڑی تعداد کو کرایے پر لیا جاتا ہے۔ یہ سب تقریباً کروڑوں روپے کے اخراجات ہیں۔
انٹرنیٹ میں رکاوٹوں اور پابندیوں کے اپنے طور پر وسیع تر نقصانات ہیں۔ ان اقدامات کے مالیاتی نقصانات کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ای کامرس اور کاروبار کافی حد تک اپنے آپریشنز کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پابندیوں سے پاکستان کا تیزی سے ترقی پاتا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سیکٹر اور آن لائن فری لانسنگ کرنے والی افرادی قوت متاثر ہورہی ہے۔ صنعتی نمائندگان جیسے پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کی جانب سے متنبہ کیا گیا ہے کہ سست انٹرنیٹ اور وی پی این بلاک کرنے سے ڈیجیٹل معیشت تباہ ہوجائے گی اور یہ آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ایک ’وجودی خطرہ‘ بن جائے گا۔
حال ہی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن فاؤنڈیشن کے ایک امریکی ماہر نے انٹرنیٹ کی رکاوٹوں سے معیشت کو لاحق طویل مدتی خطرات کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔ انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانے سے معاشی، صحت اور ہنگامی خدمات تک لوگوں کی رسائی بھی محدود ہوجاتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کی نظر میں پاکستان کا مثبت تاثر نہیں جاتا۔ بار بار شہروں اور کاروباروں کی بندش، انٹرنیٹ پر پابندیاں اور سڑکوں پر جگہ جگہ موجود کنٹینرز عالمی سطح پر تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان ایک غیرمستحکم، غیر محفوظ ملک ہے جہاں کے حالات مستقل طور پر غیریقینی کا شکار رہتے ہیں۔ اس سے غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں دلچسپی نہیں لیتے بلکہ سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
ہمارا ملک جہاں کاروبار کو اکثر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ بیشتر اوقات بند ہوجاتے ہیں، ایسے میں غیرملکی سرمایہ کار، پاکستان کو سرمایہ کاری کرنے کے لیے موزوں ملک نہیں سمجھتے۔ یوں ملک کی بڑے پیمانے پر عالمی سطح پر ہرزہ سرائی ہوتی ہے۔
یہ سب حکومت کے لیے اپنے آمرانہ طرز عمل پر نظرثانی اور بار بار خود کو قلعے میں بند کرنے کی ذہنیت سے ملک کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اداروں کو کمزور، عوام کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود اور آزادی اظہار اور لوگوں کے احتجاج کے حق کو روکنے کے لیے غیر جمہوری اقدامات کرکے اپنے اقتدار کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔