پاکستان

’اینٹی مائیکروبائل ریزسٹنس سے نمٹنے کیلئے دوسرا نیشنل ایکشن پلان تیار‘

اس لعنت پر توجہ نہ دی گئی تو 2050 تک ادویہ کےخلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کے باعث ہر منٹ میں 3 افراد موت کا شکار ہوسکتے ہیں، نمائندہ عالمی ادارہ صحت

اینٹی مائیکروبائل ریزسٹنس (اےایم آر) کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے دوسرے نیشنل ایکشن پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد سلمان نے اے ایم آر آگاہی واک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی اے ایم آر کے سنجیدہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، قومی ادارہ صحت نے ملک کے دوسرے نیشنل ایکشن پلان کو حتمی شکل دے دی ہے جو کہ صوبائی حکومتوں اور عالمی امدادی اداروں کے تعاون سے نافذ العمل کیا جائےگا۔

قومی ادارہ صحت نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، دی فلیمنگ فنڈ، گیٹز فارما اور دیگر شراکت داروں کے اشتراک کے ساتھ اس واک کا اہتمام 18 سے 24 نومبر تک جاری رہنے والے ’عالمی ہفتہ آگاہی برائے اے ایم آر 2024‘ کے باقاعدہ آغاز کے لیے کیا تھا جس کا مقصد اے ایم آر کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا اور ادویہ کےخلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کے ظہور اور پھیلاؤ کو روکنے میں مدد گار کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ڈاکٹر سلمان نے واضح کیا کہ اے ایم آر اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب اینٹی مائیکروبائل ایجنٹس کے خلاف جراثیم، وائرسز، فنگس اور پیراسائٹس کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے اور اینٹی بائیوٹکس سمیت دیگر طریقہ علاج غیر موثر ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انفیکشن کا علاج مشکل ترین ہوجاتا ہے اور بیماری کے پھیلاؤ، شدید بیماری اور موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ادویات کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت (ایکس ڈی آر) کرنے والے انفیکشنز آبادی کے لیے سنگین خطرہ بن گئے ہیں جبکہ اے ایم آر کے باعث ہسپتالوں میں خون کے انفیکشن کا علاج مشکل ترین ہوتا جارہا ہے جبکہ ہسپتالوں سے لگنے والے انفیکشنز بھی مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔

ڈاکٹر سلمان نے زور دیا کہ ادویہ کےخلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کا پھیلاؤ روکنے کے لیے عوام، ماہرین صحت اور تنظیموں کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

انہوں نے سیلف میڈیکشن سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین صحت کو صرف انتہائی ضرورت کے وقت ہی اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنی چاہئیں، انہوں نے زور دیا کہ لائیو اسٹاک اور زراعت کے شعبوں میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔

پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے قائم مقام نمائندے ڈاکٹر زین نے خبردار کیا کہ اس لعنت پر توجہ نہ دی گئی تو 2050 تک ادویہ کےخلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کے باعث ہر منٹ میں 3 افراد موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان میں اے ایم آر کے مقابلے کے لیے ریگولیٹرز، وفاقی و صوبائی محکموں، ماہرین صحت اور اساتذہ کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں ہوگی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) اسلام آباد کے شعبہ انفیکشس ڈیزیزز کی سربراہ پروفیسر نسیم اختر نے ادویہ کے خلاف مزاحمت کرنے والے جراثیموں اور پیتھوجینز کی وجہ سے ہسپتال سے لگنے والے انفیکشنز کےعلاج میں بڑھتی ہوئی مشکلات پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے عوام اور ہیلتھ کیئر کمیونٹی میں اینٹی بائیوٹکس کے غیرمنطقی استعمال کے خلاف آگاہی میں اضافے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مریضوں اور ڈاکٹرز کو اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال روکنا ہوگا۔

قومی ادارہ صحت میں اے ایم آر کی ماہر ڈاکٹر عمیرہ نصیر نے بتایا کہ عالمی ہفتہ آگاہی برائے اے ایم آر (ڈبلیو اے اے ڈبلیو) 2024 کا موضوع’ سیکھاؤ، وکالت کرو، عمل کرو ’ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس سال کا موضوع عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ شراکت داروں کو اے ایم آر کے بارے میں آگاہ کریں، جرات مندانہ وعدوں کی وکالت کرے اور اس سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

گیٹز فارما کے سربراہ پبلک ہیلتھ اینڈ ریسرچ جعفر بن باقر نے کراچی میں اینٹی مائیکروبائیل اسٹیورڈشپ سمٹ کے بعد این آئی ایچ اور وزارت صحت کے ساتھ اپنے ادارے کے تعاون پر روشنی ڈالی۔

تقریب میں اسکول کے طلبہ کے درمیان پوسٹر سازی کا مقابلہ بھی منعقد کیا گیا، جس میں آرٹ ورک کے ذریعے اے ایم آر کو اجاگر کرنے میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ این آئی ایچ اور پارٹنر تنظیموں کی جانب سے بہترین تین انٹریز کو انعامات سے نوازا گیا۔