یورو، پانڈا بانڈز کے اجرا میں حکومت کی ناکامی معیشت کو دباؤ میں ڈال سکتی ہے، ماہرین کا انتباہ
مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یورو اور پانڈا بانڈز کے اجرا میں حکومت کی نااہلی معیشت کو دباؤ میں ڈال سکتی ہے، جس سے ملک کو بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں سے بہتر درجہ بندی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی شعبے کے ذرائع نے بتایا کہ ’حکومت، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے ملک کی خراب ریٹنگز کی وجہ سے ڈالر حاصل کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں اب تک بانڈز شروع کرنے کے قابل نہیں ہے۔‘
وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے گزشتہ ماہ واشنگٹن میں معروف ریٹنگ ایجنسیوں سے ملاقات کی تھی تاکہ انہیں اس بات پر قائل کیا جاسکے کہ معیشت کے میکرو اکنامک نمبرز میں بہتری آئی ہے۔ تاہم، اب تک اس کا کوئی سودمند نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
دو ریٹنگ ایجنسیاں پہلے ہی پاکستان کی ریٹنگ میں ایک درجہ اضافہ کر چکی ہیں۔ 29 جولائی کو، فچ نے پاکستان کی طویل مدتی درجہ بندی کو ایک درجے بڑھا کر ’سی سی سی پلس‘ کردیا تھا، جبکہ 28 اگست کو موڈیز نے پاکستان کو ’ سی اے اے 2’ میں اپ گریڈ کیا تھا۔
بینکر اور کرنسی مارکیٹ کے ماہر عاطف احمد نے کہا کہ ’چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز کے اجرا کے لیے تمام کوششوں اور کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود، حکومت یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں چین کے نائب وزیر خزانہ لیاؤ مِن سے ملاقات کی تھی۔ وفاقی وزیر نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ حکومت، چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈ کا اجرا کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کی مالیاتی بنیاد کو متنوع بنایا جا سکے۔
مالیاتی ماہرین نے کہا کہ ممکنہ طور پر زیادہ منافع کے باوجود چینی کمپنیاں پاکستانی بانڈز خریدنے میں کم دلچسپی رکھتی ہیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کو فروخت کرنے میں ناکامی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی نہیں ہے۔ بولی کے لیے صرف ایک مقامی رئیل اسٹیٹ ڈیولپر اہل قرار پایا تھا، لیکن بولی کسی مثبت نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سعودی عرب اور قطر کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ دونوں ممالک متنوع شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ تاہم، دونوں ممالک کی جانب سے ممکنہ سرمایہ کاری کے متعلق مالیاتی مارکیٹ میں بہت کم جوش و خروش دیکھا گیا۔
سینئر بینکر اور کرنسی کی نقل و حرکت کے ماہر کا کہنا تھا کہ ’اسٹیٹ بینک جو کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مقامی مارکیٹ سے زیادہ سے زیادہ ڈالر خریدے، درآمدات کو محدود کرے، برآمدی آمدنی کی زیادہ فروخت کے لیے شرح تبادلہ کو مستحکم رکھے، غیر ملکی کرنسیوں کے غیر قانونی کاروبار کو روکے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ ترسیلات زر کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات فراہم کرے۔‘