نقطہ نظر

ایران-اسرائیل کشیدگی: کیا واقعی اسرائیل کے حملے میں امریکا کا کوئی کردار نہیں تھا؟

اگر ایران کی دھمکیاں محض لفاظی نہیں تو دنیا بالخصوص خطہ ایک وسیع تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور ایران کے ردعمل سے امریکا بھی جنگ میں شامل ہوجائے گا۔

ہفتوں کی تیاری کے بعد ہفتے کی شب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا جیسا کہ اس نے عہد کیا تھا لیکن ان فضائی/میزائل حملوں کا پیمانہ اور اہداف محدود تھے۔ ساتھ ہی اسرائیل نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس نے اپنی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں اور ایران کو ممکنہ جوابی کارروائی کے اثرات سے بھی خبردار کیا۔

اب کیا ہوگا؟ یہ سوال بہت سے لوگوں کے دماغ میں ہوگا کیونکہ متعدد ایرانی ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ وہ ہفتے کی شب کی جانے والی کارروائی کا جواب دیں گے۔ ماضی میں ایران نے خطے میں امریکی اتحادیوں بالخصوص امریکی اڈے رکھنے والے ممالک کو خبردار کیا تھا کہ انتقامی کارروائیوں میں انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

بہت سی میڈیا تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے ایران کی تیل اور جوہری تنصیبات کو نشانہ نہ بنانے کا تاج امریکا کے سر دے رہی ہیں۔ تاہم اسرائیلی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایران پر اپنے میزائل حملے میں انہوں نے میزائل سازی کے مقامات اور لانچنگ سائٹس کو نشانہ بنایا۔

شام کے دارالحکومت میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملے جس میں پاسدارانِ انقلاب کے کئی اعلیٰ عہدیداران جاں بحق ہوئے اور حماس کے سربراہ اسمعٰیل ہنیہ کی تہران میں شہادت جہاں وہ نومنتخب صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے موجود تھے، ان سب محرکات کی بنا پر ایران نے اسرائیل پر یکم اکتوبر کو جوابی حملہ کیا تھا جس کے بعد سب کو اندازہ تھا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملہ کیا جائے گا۔

ایران کی جانب سے جوابی کارروائی ڈرونز، بیلسٹک اور کروز میزائلز کی صورت میں کی گئی تھی جس نے اسرائیل کی فوج اور انٹیلی جنس تنصیبات جیسے فضائیہ کے اڈے اور سیکیورٹی سروس موساد کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا تھا۔ ایرانی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ محدود دائرے میں کیا گیا اور اس کا مقصد اسرائیل کے نامور ’آئرن ڈوم‘ ایئر ڈیفنس میں موجود خامیوں کا اندازہ لگانا تھا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسرائیل کے پاس مغربی امداد اور ان کے فراہم کردہ جدید ترین ہتھیار بشمول فضائی اثاثے، اعلیٰ انٹیلی جنس اور آپریشنل صلاحیتیں موجود ہیں۔ لیکن یہ حقیقت کہ ایران کے حملے کے چند دنوں بعد ہی امریکا نے اپنی THAAD اینٹی میزائل بیٹریز اور ان کے امریکی عملے کو اسرائیل میں تعینات کرنا شروع کردیا، اس نے اسرائیل کے میزائل شکن نظام اور فضائی دفاع میں خرابیوں کی نشاندہی کی۔

اگرچہ امریکا نے فوری طور پر یہ دعویٰ کردیا کہ ہفتے کو ہونے والے اسرائیلی حملے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن وہ کئی ہفتوں سے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے جس کا واحد مقصد خطے میں موجود اپنے طیارہ بردار جہازوں سے ایران کو دھمکیاں دینا ہے۔

حال ہی میں یو ایس سینٹ کام نے اپنے ایکس ہینڈل پر اعلان کیا کہ امریکی فضائیہ کے ایف-16 طیارے جرمنی کے 480ویں اسکواڈرن اسپنگڈہلم ایئر بیس سے سینٹرل کمانڈ کے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔

جب میں نے پہلی بار یہ ٹوئٹ پڑھا تو میں تذبذب کا شکار ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا کے پاس طیارہ بردار بحری جہازوں اور خطے میں آپریشنل اڈوں پر زیادہ جدید اور اعلیٰ جنگی طیارے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار بھی اڈوں پر موجود ہیں۔ ایف-16 کی تعیناتی کی اہمیت مجھے اس وقت معلوم ہوئی کہ جب میں نے آن لائن تھوڑی تحقیق کی۔

جرمنی میں امریکا کے 480ویں اسکواڈرن کو ’وارہاکس‘ کہا جاتا ہے جس کا کام دشمنوں کے ایئر ڈیفنس کو ناکام بنانا ہے۔ ایسے مشنز کے لیے وہ برقی جنگی ہتھیاروں جیسے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے ریڈار کو جام کرنے اور ایئر ڈیفنس میزائل کی تنصیبات پر حملہ کرنے اور مستقبل میں تباہ کرنے کے لیے نشان زد کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

اگر اسرائیل کے ایران میں اہداف کو نشانہ بنانے یا اس سے قبل جب اس نے ممکنہ طور پر ایران کے کسی ہمسایہ ملک سے ایندھن بھروایا ہوگا، اس دوران اگر امریکا نے ایران کی میزائل بیٹری کو ناکارہ کردیا تھا تو اس کا یہ دعویٰ کہ حملے میں اس کا کوئی کردار نہیں، بالکل غلط ہے۔ زیادہ دن نہیں لگیں گے اور ہمارے سامنے وہ تمام معلومات آجائیں گی جو اس نظریہ کو درست ثابت کریں گی یا غلط۔

میڈیا بالخصوص مغربی میڈیا میں بہت سی خبریں گردش کررہی ہیں کہ امریکا اور ایران کے چند خلیجی ہمسائیوں نے اپنے اثرورسوخ سے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ ایران پر اپنے حملے کو محدود رکھے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر تنازع بڑھتا ہے تو اس کی لپیٹ میں وہ بھی آجائیں گے۔

اگر یہ اطلاعات مصدقہ ہیں تو یہ حیران کن ہے کہ ان قوتوں نے غزہ میں جاری قتل عام، مسلسل آبادکاری اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کیا۔

آج دنیا غزہ میں جو کچھ دیکھ رہی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ غاصب فوج کا یہ دعویٰ کہ وہ ’دنیا کی سب سے بااخلاق فوج‘ ہے، سوشل میڈیا ان کے اس دعوے کے پرخچے اڑا رہا ہے جو صہیونی افواج کے جابرانہ اقدامات کو براہ راست نشر کررہا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے ہسپتال یا ان کے لیے جو بھی پناہ گاہ باقی ہے، ان سب کو ملبے کا ڈھیر بنایا دیا گیا ہے اور یہ مقامات نہتے شہریوں کا مقتل گاہ بن چکے ہیں جن میں بچے اور نومولود بھی شامل ہیں۔

تہران یونیورسٹی کے پروفیسر سید محمد مراندی جنہوں نے نوعمری میں پاسدارانِ انقلاب میں خدمات انجام دیں، ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو اکثر ایرانی حکومت کے مؤقف کو بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے ایران کا عزم ہمیشہ کی طرح پختہ ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ایران جوابی کارروائی کرے گا اور اس کی جوابی کارروائی سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوسکتی ہے۔

ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور سڑکوں پر شہید ہوتا دیکھ کر دنیا کے بہت سے لوگ غمگین ہیں۔ اپنی حکومتوں کی سمجھوتے کی پوزیشن کے برخلاف، وہ چاہتے ہیں کہ اذیت ناک ذہنی تناؤ ختم ہوجائے۔ وہ اسے روکنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔

اگر ایران کی دھمکیاں محض لفاظی نہیں تو دنیا بالخصوص خطہ ایک وسیع تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے کیونکہ ایران کے کسی بھی ردعمل سے امریکا بھی اس تنازع کا حصہ بن سکتا ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ اس تنازع کے خطے میں تیل کی پیداوار پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ تنازع جو المناک ہونے کے ساتھ ساتھ فی الوقت دور بھی ہے، دنیا کے لیے تباہی کا پروانہ ثابت ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کشیدگی کے دنیا بھر کی معیشت پر اثرات مرتب ہوں گے اور مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیدا ہوں گے۔

اپنے اقدامات سے طاقتور حلقوں نے واضح کیا ہے کہ وہ چاہیں تو اثرورسوخ استعمال کرکے حالات تبدیل کرسکتے ہیں لیکن ان کےنزدیک شاید بہ ظاہر فلسطینی انسان نہیں ہیں۔ شاید جب اپنی معیشت کو خطرات لاحق ہوں گے تب انہیں ہوش آئے اور وہ نسل کشی کرنے والی ریاست کے جنونی پن کو قابو میں کرنے کے لیے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کریں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔