پاکستان

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں پر ایک نظر!

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے، 17 ستمبر 2023 کو 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا۔

پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ایک سال ایک ماہ اور دس دن اس عہدے پر فائز رہے، اس دوران انہوں نے بے شمار ایسے فیصلے اور ریمارکس دیے جس نے میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی۔

بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس مختصر ترین عرصے میں کئی تاریخ ساز فیصلے ہوئے جس نے ملک میں آئین و جمہوریت کی بالادستی قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم کئی فیصلوں پر مختلف سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعارف

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم بلوچستان میں ہی حاصل کی اور کراچی گرامر اسکول سے او اور اے لیول کیا، انہوں نے بی اے اونرز ان لا کی ڈگری بھی حاصل کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 1985 میں ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس کا آغاز کیا، 1988 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر وکالت شروع کی، 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ کا حلف اٹھایا۔

وہ 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے جبکہ 17 ستمبر 2023 کو 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں چند انتہائی اہم مقدمات کی سماعت کی، انہوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا، سابق صدر پرویز مشرف سنگین غداری کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق کیس کا فیصلہ دیا جبکہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سربراہی کی۔

سپریم کورٹ میں سماعت کی براہ راست نشریات کا آغاز

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے ملک کے چیف جسٹس کی حیثیت سے پہلے دن کا آغاز سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر فل کورٹ سماعت سے ہوا اور چیف جسٹس کے حکم پر پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی سماعت براہ راست نشر ہوئی۔

سپریم کورٹ میں فل کورٹ سماعت کی لائیو نشریات کو قانونی، صحافی اور سیاسی برادری کی چیدہ شخصیات کی طرف سے ایک خوش آئند قدم قرار دیا گیا اور اس اقدام کو سراہا گیا جبکہ سوشل میڈیا صارفین نے کمرہ عدالت میں پیش آنے والے واقعات اور مکالمے کو دلچسپ تجربہ قرار دیا جبکہ کچھ نے کہا کہ ’عدالتی کارروائی قومی زبان کے بجائے اس زبان میں نشر کی جارہی ہے جس کی اکثریت کو سمجھ ہی نہیں آتی‘۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ

آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل تھا جو یا تو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر جہاں پر بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔

حکومت نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ اپریل 2023 میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروایا تھا جس کا مقصد چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے اور بینچوں کی تشکیل کے اختیار میں عدالت عظمیٰ کے 2 سینئر ججوں کو شامل کرتے ہوئے 3 ججوں کی کمیٹی کے سپرد کرنا تھا، جس میں دیگر عوامی اہمیت کے آئینی معاملات بھی شامل تھے۔

قانون میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ آیا ازخود نوٹس پر معاملہ اٹھایا جائے یا نہیں، جو کہ پہلے چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر مجموعی طور پر 8 شقوں پر مشتمل ایک قانون ہے جس کی شق نمبر 2 کے مطابق عدالت عظمیٰ میں مقدمات کی تقرری 3 رکنی کمیٹی کرے گی جبکہ بینچ کی تشکیل کا اختیار 3 رکنی کمیٹی کو دیا گیا ہے۔

شق نمبر 3 کے مطابق 184/3 کا آنے والا ہر معاملہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا اور کمیٹی معاملے کو بنیادی حقوق کے نفاذ اور عوامی اہمیت کے معیار پر جانچے گی، 184/3 کے مقدمات کی کم از کم 3 ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔

بعد ازاں، 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ کیا گیا، جو وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا۔

ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا، پہلے سے موجود پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئر ججز بینچ کی تشکیل کے ذمہ دار تھے لیکن ترمیمی آرڈیننس میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی جس کے بعد اب چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کے علاوہ تیسرا جج چیف جسٹس خود اپنی مرضی سے نامزد کرے گا۔

آرڈیننس نافذ العمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے مطابق دوسرے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو 3 رکنی ججز کمیٹی سے باہر کردیا اور جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا جو سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے نئی تشکیل کردہ ججز کمیٹی پر اعتراض کرتے ہوئے کمیٹی کا حصہ بننے سے معذرت کرلی۔ انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر کہا کہ آرڈیننس جاری ہونے کے چند گھنٹوں میں وجہ بتائے بغیر نئی کمیٹی کیسے قائم ہوئی۔

خط میں انہوں نے سوال کیا کہ ’چیف جسٹس نے چوتھے نمبر کے سینئر ترین جج کو ہی کمیٹی کا حصہ کیوں بنانا چاہا، کیا چیف جسٹس چوتھے نمبر کے جج کو کمیٹی کا رکن بنانے کی وجوہات بتائیں گے، چیف جسٹس نے دوسرے اور تیسرے نمبر کے سینئر ترین جج کو کمیٹی کے لیے کیوں نہیں چنا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’ قانون کے تحت آپ اس بات پر سوال نہیں اٹھا سکتےکہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے، جسٹس یحییٰ آفریدی کو کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا لیکن انہوں نے ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی، جسٹس یحییٰ آفریدی کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا گیا’۔

ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس

سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر 2023 کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد 4 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 6 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے متفقہ رائے دی کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔

8 جولائی کو سپریم کورٹ نے 48 صفحات پر مشتمل تفصیلی رائے تحریر کی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ تفصیلی رائے تحریر کی جس میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ اور ایپلیٹ کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو منصفانہ اور شفاف ٹرائل کا موقع فراہم نہیں کیا اور شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

سنگین غداری کیس

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف (مرحوم) نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے تھے، 2013 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

17 دسمبر 2019 کو اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین توڑنے پر کسی سابق فوجی سربراہ یا سابق صدر کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل خصوصی کورٹ کے دو ججز کی اکثریت سے یہ فیصلہ ہوا تھا۔

پرویز مشرف (مرحوم) نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے توسط سے سپریم کورٹ میں سزا کے خلاف دائر اپیل میں استدعا کی تھی کہ سزا کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ ان کے خلاف مقدمہ مکمل طور پر آئین اور ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیا، اس سزا کو معطل کیا جانا انصاف اور منصفانہ عمل کے مفاد میں ہے۔

بعد ازاں 13 جنوری 2020ء کو عمران خان کی حکومت میں لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کو کالعدم کرنے کے ساتھ خصوصی عدالت کو ہی بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف چار سال سے اپیلیں سپریم کورٹ میں زیرِالتوا رہیں لیکن سماعت کرنے کی جرات کسی چیف جسٹس کو نہیں ہوئی۔

10 جنوری 2024 کو پرویز مشرف کی وفات کے تقریباً 11 ماہ بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 4 رکنی لارجر بینچ نے پرویز مشرف (مرحوم) کی سزا کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم دیا، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن

22 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا تھا تاہم 26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی۔

3 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے دوبارہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

14 جنوری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی۔

تینوں ججز کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے 14 اراکین نے انتخابات کے بارے میں شکایت کی، اراکین نے پی ٹی آئی سے تعلق ثابت کیا، الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف کئی شکایات ملیں، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنایا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے میں پی ٹی آئی کوانتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔

مخصوص نشستوں کا معاملہ

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

3 مئی کو ‏پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا، 6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔

9 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بتایا کہ فیصلہ 8/5 کے تناسب سے دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی۔

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں 17 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا، فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی جبکہ پی ٹی آئی یا اس کے کسی رہنما نے آزاد رکن قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں کیا، تاہم اس حقیقت کے پیش نظر درخواستیں انتخابی کارروائی کا تسلسل ہے اس لیے عدالت کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے، آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے، سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی، آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے، پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں اور وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کی وضاحت پر تنازع

14 ستمبر کو مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے وضاحتی حکم جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں جب کہ الیکشن کمیشن فیصلے پر فوری عملدرآمد کرے۔

سپریم کورٹ کے وضاحتی حکم میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا، الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے کہ تحریک انصاف رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اقلیتی ججز نے بھی تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن کو تسلیم کیا۔

کیس میں اکثریتی 8 ججز کے بینچ کا فیصلہ 4 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش اور تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواست عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کے راستہ میں رکاوٹ ہے اور اس کی وضاحت کی درخواست درست نہیں۔

وضاحتی حکم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا، فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ واضح ہے اور اس کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔

22 ستمبر کو 8 اکثریتی ججز کی جانب سے جاری وضاحت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم سے 9 سوالات کے جوابات طلب کیے۔

رجسٹرار سے پوچھا گیا کہ الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف نے وضاحت کی درخواست کب دائر کی؟ تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں کیوں نہیں بھیجی گئیں؟ متفرق درخواستیں کاز لسٹ کے بغیر کیسے سماعت کے لیے مقرر ہوئیں؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا؟ کسی کمرہ عدالت یا چیمبر میں درخواستوں کو سنا گیا؟ درخواستوں پر فیصلہ سنانے کے لیے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی؟

رجسٹرار سپریم کورٹ سے مزید پوچھا گیا کہ آرڈر کو سنانے کے لیے کمرہ عدالت میں فکس کیوں نہ کیا گیا؟ اوریجنل فائل اور آرڈر سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع ہوئے بغیر آرڈر کیسے اپلوڈ ہوا؟ آرڈر کو سپریم کورٹ ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کا آرڈر کس نے کیا؟

بعد ازاں، 18 اکتوبر کو مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججوں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ نے دوسری بار وضاحت جاری کی۔

دوسری وضاحت میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے مطابق سپریم کورٹ کا مختصر حکم آئینی دفعات کی تشریح اور نفاذ پر مبنی ہے لہٰذا الیکشن ایکٹ میں ترامیم مختصر فیصلہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتیں، مخصوص نشستوں کا مختصر فیصلہ جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن اس حوالے سے ہونے والی ترمیم کا پابند نہیں۔

اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اکثریتی فیصلے پر عمل کرنا ہوگا اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 12 جولائی کا فیصلہ غیر موثر نہیں ہوسکتا۔

20 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر 8 ججوں کی جانب سے دوسری بار وضاحت جاری کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے عملے سے جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس کے دفتری نوٹ میں کہا گیا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ 18 اکتوبر کو 8 ججوں کی طرف سے وضاحت جاری کی گئی تھی، انہوں نے وضاحت طلب کی کہ اصل فائل کے بغیر وضاحت کیسے جاری ہوئی، ڈپٹی رجسٹرار نے مخصوص نشستوں کے کیس کی اصل فائل نہ ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری کو خط جاری کیا۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے عہدیداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا ’مذکورہ خط/نوٹس کو دفتر میں داخل کرنے سے پہلے کیوں جاری کیا گیا تھا‘، اسی طرح ویب ماسٹر عاصم جاوید سے بھی وضاحت طلب کی گئی کہ وہ بتائیں دفتر میں فائل کیے بغیر دوسری وضاحت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر 18 اکتوبر کو کیوں اپ لوڈ کی گئی۔

مبارک ثانی کیس

مبارک ثانی کیس کا شمار حالیہ تاریخ کے سب سے اہم اور مشہور مقدمات میں ہوتا ہے جس کے خلاف حکومت، اپوزیشن، سیاسی ومذہبی جماعتیں سب کا اتفاق نظر آیا اور ابتدائی فیصلے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے کئی دن تک اسلام آباد کے ریڈ زون میں احتجاج کیا گیا۔

7 مارچ 2019 کو صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں توہین مذہب کا معاملہ سامنے آیا جس کے خلاف 3 سال بعد 6 دسمبر 2022 کو مقدمہ درج ہوا اور پھر 7 جنوری 2023 کو مبارک احمد ثانی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا، جس کی ضمانت کے لیے ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ نے درخواستیں مسترد کیں، تاہم سپریم کورٹ نے یہ ضمانت منظور کرلی اور فیصلے میں چند ایسی باتیں تحریر کیں جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع ہوئی اور یہ معاملہ قومی اسمبلی، مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ زیر بحث آیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل سمیت دیگر علمائے کرام نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ فیصلے پر نظرثانی کرے، پنجاب حکومت نے نظرثانی اپیل دائر کی جو سپریم کورٹ نے منظور کرلی، 17 اگست 2024 کو وفاقی حکومت نے بھی اس معاملے پر اضافی نظرِ ثانی کی درخواست دے دی۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 22 اگست 2024 کو نظرِ ثانی پر سماعت کے بعد مبارک ثانی کی ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے علما کی تجاویز پر فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 حذف کرنے کا حکم دیا۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظر ثانی کیس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ نے منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنے کا آرٹیکل 63 اے سے متعلق عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا، جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔