پاکستان

اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے فوکل پرسن انتظار پنجوتھا کی بازیابی کی درخواست پر اٹارنی جنرل طلب

15 دن ہو گئے ہیں بندہ غائب ہے، آپ کے پاس جو رپورٹ آئی ہے اس کے بعد کیا کرنا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا آئی جی سے استفسار
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے فوکل پرسن انتظار پنجوتھا کی بازیابی کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو کل طلب کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بازیابی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل علی بخاری، آئی بی افسر اور آئی جی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

آئی جی اسلام آباد نے تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی، آئی ایس آئی اور ایم کی رپورٹ جمع کروا دی گئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی بخاری سے استفسار کیا کہمیں نے آئی بی کی رپورٹ دیکھی ہے مجھے کوئی سمجھ نہیں آئی، کیا آپ کو کوئی سمجھ آئی؟ جس پر علی بخاری کا کہنا تھا کہ ہم نے بھی دیکھی ہے ہمیں بھی کوئی سمجھ نہیں آئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پہلے ان سے کہتے ہیں وضاحت کریں پھر آئی جی صاحب سے پوچھتے ہیں۔

آئی بی افسر نے عدالت کو بتایا کہ یہ نمبر ایکٹویٹ نہیں ہوا، انٹرنیٹ کسی اور ڈیوائس سے استعمال ہوا، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ مطلب انٹرنیٹ استعمال نہیں ہوا اس نمبر پر، انٹرنیٹ کسی اور ڈیوائس سے استعمال ہوا۔

آئی جی اسلام آباد نے مؤقف اپنایا کہ آئی بی کی رپورٹ کے مطابق اس سم کو انٹرنیٹ کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ کوئی اور سورس استعمال کر رہا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ میں اگر سم پر انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہوں پھر وائی فائی سے کنکٹ ہو جاتا ہے تو کیا ہو گا، جس پر آئی جی کا کہنا تھا کہ اگر سم ڈیٹا بند ہوتا ہے تو وائی فائی کنکٹ ہوتا ہے تو سم کو انٹرنیٹ سے ٹریس نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی بخاری سے استفسار کیا کہ آپ کو سمجھ آئی کیا کہا آئی جی صاحب نے، جس پر علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ میں ٹیکنیکل آدمی نہیں عام آدمی ہوں۔

علی بخاری کا کہنا تھا کہ میں اس ملک میں رہتا ہوں، جہاں 25، 26 خفیہ ایجنسیاں ہیں، آپ افسران کو بلا لیں بندہ آ جائے گا، مزید کہا کہ کل مجھے اٹھا لیا جاتا ہے تو کہیں گے ہمیں نہیں پتا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ 15 دن ہو گئے ہیں بندہ غائب ہے، آپ کے پاس جو رپورٹ آئی ہے اس کے بعد کیا کرنا ہے۔

’انتظار پنجوتھا کے نام پر ایک سم کی لوکیشن پشاور ہے‘

آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ہم نے ریورس انجینئرنگ کے لیے ایف آئی اے اور سی ٹی ڈی پنجاب کو واٹس ایپ کے آئی پی ایڈریس لینے کے لیے لکھا ہے، رپورٹ کے مطابق انتظار پنجوتھا کے نام پر 3 سمیں ہیں ان میں سے ایک سم کی لوکیشن پشاور ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ پشاور کی لوکیشن پر گئے ہیں؟ جو نمبر آپ نے دیا ہے یہ انہی کے نام پر ہے؟ جس پر آئی جی اسلام کا کہنا تھا کہ جی بالکل یہ سم انتظار پنجوتھا کے نام پر ہے، 10 اکتوبر کو ایکٹویٹی ہوئی ہے، 8 ایس ایم ایس آئے ہیں اور 2 بھیجے گئے۔

آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ جن کو میسج آیا ہے ان کو بلایا ہے کہ بتائیں کیا میسج آیا ہے، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ کیا کمپنی کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے کیا میسج میں کیا تھا؟

آئی بی افسر نے بتایا کہ میسج کا کانٹینٹ نہیں دیا جاتا، اگر ریکوسٹ ہو تو کمپنی ڈیٹا شیئر کر دیتی ہیں، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئی بی اور آئی جی پولیس سے تگڑی ریکوسٹ کیا ہو سکتی ہے۔

علی بخاری نے دلائل دیے کہ جو ٹیکنالوجی آئی جی صاحب نے بتائی دنیا بہت اگے چلی گئی ہے، آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ ایک ٹیم پشاور اور ایک اٹک میں موجود ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ پشاور والی ٹیم سے کہیں بیرسٹر سیف سے اسٹیٹمنٹ لے لیں، جس پر آئی جی نے بتایا کہ بیرسٹر سیف ہمیں کیسز میں مطلوب بھی ہیں اور موجودہ وزیر بھی ہیں۔

علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ آئی جی صاحب نے جتنی کوشش کی تعریف کے قابل ہے، صرف پولیس نہیں اور بھی ادارے ہیں، ان کو بھی انگیج کریں 15 دن ہو گئے ہیں بندہ غائب ہوئے۔

علی بخاری کا کہنا تھا کہ 8 کو بندہ اٹھایا 10 کو موبائل میں ایکٹویٹی ہوتی ہے، جنہوں نے اٹھایا ہے، ان کے کہنے پر بھی نمبر آن ہوسکتا ہے ناں۔

آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ہم فتح جھنگ ٹول پلازہ سے ٹریک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کی کیا رپورٹ ہے؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رپورٹس جمع کروا دی ہیں رپورٹ نگیٹیو ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ میں اٹارنی جنرل کو بلا کر پوچھ لیتا ہوں اور وزارت دفاع کی رپورٹ بھی منگوا لیتے ہیں، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں وقت دیا جائے، پولیس بھی وقت مانگ رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب کو آنے دیں، سپریم کورٹ کے اوقات کے بعد آ جائیں، ہم اس کو کل ڈی بی کے بعد سن لیں گے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ میں اس پرتفصیلی آرڈر جاری کروں گا، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل 2:30 بجے تک ملتوی کر دی۔