پاکستان

آئینی ترمیم کے متن پر جھگڑا نہیں رہا، ووٹنگ میں حصہ نہ لینا پی ٹی آئی کا حق ہے، فضل الرحمٰن

ہم آئینی پیکج پر متفق ہیں، ہم نے پیکج پر اتفاق کیا، کالے سانپ کے دانت توڑ کر اس کا زہر نکال دیا، جزئیات پر کہیں تحفظات ہیں تو ہم اب بھی ترامیم لا سکتے ہیں، سربراہ جے یو آئی (ف)

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے متن پر جھگڑا نہیں رہا، ووٹنگ میں حصہ نہ لینا پی ٹی آئی کا حق ہے، ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ کر اس کا زہر نکال دیا ہے۔

اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ تحریک انصاف کا شکرگزار ہوں، پی ٹی آئی کا ووٹنگ میں حصہ نہ لینا ان کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ تحفظات رہ جاتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں اور اس کا زہر نکال دیا، اس پر پی ٹی آئی نے اتفاق کیا، متن پر اب کوئی جھگڑا نہیں رہا۔

اس دوران جب ان سے ایک صحافی نے کالے سانب کے زہر سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا یہ لمبی بات ہوجائے گی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیکن تحریک انصاف کے حالات ایسے ہیں کہ جیسا کہ کل انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اور ان کی حالت زار جو انہوں نے ہمیں بتائی، ان کے مظاہروں پر تشدد ہوئے، ان کے کارکن گرفتار ہوئے، اس پر احتجاج کرکے اگر وہ ووٹنگ میں حصہ نہیں لے رہے، یا اس کارروائی کا حصہ نہیں بنتے تو میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ان کا حق بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن کیونکہ بنیادی مسودے پر اختلاف نہیں ہے، ظاہر ہے ایک لمبا عرصہ ہم نے نمائش کے لیے نہیں گزارا، ایک مہینہ ہم نے مذاکرات کیے، میڈیا نے ہمیں کوریج دی، یہ ساری چیزیں ایک سنجیدہ عمل ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئین پاکستان اس ماحول میں بنا جب بلوچستان اسمبلی توڑ دی گئی، میرے والد صاحب نے اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا، اس ماحول میں بھی آئین بنا، اختلاف رائے پھر بھی برقرار رہا لیکن آئین بن گیا، 18ویں ترمیم منظور کی گئی، حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھی رہی، آئین قوم کا ہوتا ہے، ہم نے مل کر ایک محنت اور کوشش کی لیکن ایک جماعت کی کوئی مخصوص پوزیشن ہوتی ہے، اس پر ہم اس پر جبر نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی اس معاملے پر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حق پر ہیں، اس میں وہ ایک جائز احتجاج کر رہے ہیں، لیکن چونکہ اب اتفاق رائے ملکی سطح پر ہو رہا ہے، ہم نے ان کا جو بل مسترد کیا، اب وہ نہیں رہا، اس میں سے سب کچھ نکال دیا گیا ہے اور اب بھی کچھ چھوٹا موٹا تحفظ رہ گیا ہے تو اس پر بھی ہم اپنی ترامیم دیں گے، اب بھی مفاہمت کا وقت ہے، بل پیش نہیں ہوا، اس پر ہم اتفاق رائے کے ساتھ ترامیم دیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئینی ترمیم کو ججوں کی شخصیات کے بیچ میں یرغمال کیوں بنا رہے ہیں کہ ان کی مدت ملازمت میں اضافے اور ان کی تعداد میں اضافے کے لیے ترمیم کر رہے ہیں، یہ تو آئینی ترمیم کی توہین ہے، شخصیات کو کیوں بیچ میں لا رہے ہیں، آج کوئی شخصیت ہے، کل نہیں ہے، زندہ ہے، فوت ہوگئی ہے، بہت سی چیزیں ہیں، سنیارٹی بھی ایک وجہ ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن کارکردگی بھی اہم ہے، فٹنس بھی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم نے کہا تھا کہ دو، تین پینل بنیں، ان میں سے ہر حوالے سے دیکھا اور انتخاب کیا جائے تو شاید ایک صحت مند روایت بن جائے، ہم آئینی پیکج پر متفق ہیں، ہم نے پیکج پر اتفاق کیا ہے، جزئیات پر اگر کہیں تحفظات ہیں تو ہم اب بھی ترامیم لا سکتے ہیں۔

اس موقع پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حکومت آئین مین ترمیم کرنے جارہی ہے، مولانا نے جوکردار ادا کیا، جس بردباری کامظاہرہ کیا، اس پر ہم مولانا کے بےحد مشکور ہیں، ہمارا مولانا سے تعلق اسی طرح رہے گا، ہماری آج بھی مولانا فضل الرحمٰن سے طویل مشاورت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت آئین میں ترمیم کرنے جارہی ہے، آئین میں ترمیم سنجیدہ مسئلہ ہے، ہم اس مسئلےکوسمجھتےہیں، ہم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، بانی پی ٹی آئی عمران خان کی مرضی اور مشاورت سے کرتے ہیں۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم ایک اصولی مؤقف دےچکے ہیں، ہمارے ایم این ایز، سینیٹرز کو ہراسان کیا گیا، ہم شدید مذمت کرتےہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس بل پر پی ٹی آئی ووٹ نہیں دے سکتی، ہم اس سارے عمل میں شرکت نہیں کریں گے، ترمیمی بل پر ووٹ نہیں دیں گے۔