پاکستان

لاہور: طالبہ سے زیادتی کی جھوٹی خبرسوشل میڈیا پر پھیلانے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

ایس ایس پی انوسٹی گیشن محمد نوید کی سربراہی میں 6 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کا پہلا اجلاس آج ہی طلب کر لیا گیا۔

محکمہ داخلہ پنجاب نے لاہور کے نجی کالج میں طالبہ سے زیادتی کی غیر مصدقہ خبر سوشل میڈیا پر پھیلانے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی، جس کا پہلا اجلاس آج ہی طلب کر لیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) انوسٹی گیشن محمد نوید کی سربراہی میں 6 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں تین پولیس افسر اور تین حساس اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔

مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تھانہ ڈیفنس اے میں درج مقدمے کی تفتیش کرے گی، تحقیقات میں سوشل میڈیا پر ریاست مخالف اکسانے کی ترغیب دینے والوں کی نشاندہی کی جائےگی۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر لڑکی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کا بھی سراغ لگایا جائے گا، ایس ایس پی محمد نوید نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کا پہلا اجلاس آج ہی طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے پر راولپنڈی میں احتجاج کرنے والے 385 مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ پولیس نے منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا تھا۔

16 اکتوبر کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کو پروپیگنڈے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچی زیادتی نہیں، گھٹیا سازش کا شکار بنی، بار بار کی احتجاج کی کال ناکام ہونے کےبعد انتہائی گھٹیا اور خطرناک منصوبہ بنایاگیا، فتنہ فساد کی جڑ خیبرپختونخوا حکومت ہے۔

مریم نواز نے جعلی خبر پھیلانے میں ملوث عناصر کےخلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ سازش کامیاب ہوجاتی تو کئی جانیں جاسکتی تھیں، سازش کے تمام تانے بانے کھل کر میرے سامنے آگئے ہیں، سوشل میڈیا پر جھوٹ کی فیکٹریوں کو اب بند ہونا چاہیے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ 10 اکتوبر کو ایک بچی کا نام لیا گیا کہ وہ ریپ کا شکار ہوئی ہے لیکن وہ بچی 2 اکتوبر سے اسپتال میں داخل ہے، وہ بچی کہیں گری اور بری طرح زخمی ہونے کے بعد آئی سی یو میں داخل ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہنا تھا کہ ’میری اس بچی کی والدہ سے رات بات ہوئی تو وہ شدید صدمے کی حالت میں تھیں، ان کی اپنی کوئی سرجری ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے، میری 5 بچیاں ہیں ان کی شادیاں بھی ہوں گی لہٰذا اس سازش کے کرداروں کو بے نقاب کرنا اور کیفر کردار تک پہچانا آپ کی ذمے داری ہے، اس والدہ کی درخواست پر آپ آج مجھے میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔‘

بعد ازاں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا تھا کہ لاہور میں طلبہ کو مظاہروں پر اکسانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے ایک بیان میں مریم نواز نے کہا تھا کہ سازش میں شامل کسی بھی شخص کو نہیں بخشا جائے گا، جھوٹے پروپیگنڈے سے معصوم لڑکی اور اہل خانہ متاثر ہوئے ہیں۔

تاہم اگلے روز (17 اکتوبر) لاہور کی مقامی عدالت نے سوشل میڈیا پر نجی کالج میں مبینہ ریپ کی فیک نیوز وائرل کرنے کے کیس میں گرفتار ملزم ایڈووکیٹ فیصل شہزاد کو مقدمے سے ڈسچارج کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

واقعہ کا پس منظر

واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔

پیر کی شپ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔

اے ایس پی کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا۔