پاکستان

طالبہ سے مبینہ زیادتی: ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا؟ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

عدالت نے حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے حوالے سے فل بنچ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اگلی سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
|

لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے تعلیمی اداروں میں مبینہ ہراسگی کے واقعات کی تحقیقات کےلیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا؟

عدالت نے حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے حوالے سے فل بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا، اور اگلی سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے اعظم بٹ اور عظمی بخاری کی درخواستوں پر سماعت کی، اس موقع پر عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا؟ کیا آپ نے ویڈیوز روکنے کے لیے کسی اتھارٹی سے رابطہ کیا، جس پر آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی اے سے رابطہ کیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے آئی جی پنجاب سے مکالمہ کیا کہ آج 18 تاریخ ہے، ویڈیو 13 اور 14 کو وائرل ہوئی، آپ نے جاگنا تب ہوتا ہے جب آگ لگ چکی ہوتی ہے سب جل چکا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ نے متعلقہ اتھارٹیز سے بہت تاخیر سے رابطہ کیا، آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ 700 سے زائد اکاؤنٹس سے ویڈیوز وائرل ہوئیں۔

آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے پاس سائبر کرائم کو دیکھنے کے لیے صرف ایک ادارہ ہے، جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ آئی جی صاحب یہ آپ کی ناکامی ہے آپ نے بچوں کو سڑکوں پر آنے دیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں دو دن کا حساب دیں کہ 14اور 15 اکتوبر کو آپ نے کیا کیا، آج بھی ایکس اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز پڑی ہیں، دو دن آپ نے کچھ نہیں کیا آپ انتظار کرتے رہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آپ نے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں، اس کے بعد آپ نے دو دن کچھ نہیں کیا اور 16 اکتوبر سے کام شروع کیا، نیت ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں۔

آئی جی پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ ڈیٹا کو اپلوڈ ہونے سے روکنا اتنا آسان نہیں ہوتا نا ہی ہمارے پاس اتھارٹی ہے، ہم ایک اکاؤنٹ سے روکیں گے تو دوسرے سے ری پوسٹ ہوجاتی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ جو بچیاں سڑکوں پر آئیں اگر انہیں کچھ ہوجاتا تو کون زمہ دار تھا؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق 12 اکتوبر کو ایک انسٹا گرام پوسٹ سے کہا گیا کہ نجی کالج میں لڑکی کا ریپ ہوا، اسی دن ایس ایس پی متعلقہ کیمپس میں پہچنے اور تحقیقات شروع کیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ فرسٹ ایئر کے بچوں کے اپنے واٹس ایپ گروپ ہیں جن پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، مزید کہا کہ ہر گروپ میں انسٹا گرام پوسٹ شئیر ہوئی مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے۔

آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ پولیس نے 700 سے زائد اکاؤنٹس کی شناخت کی، انگلینڈ میں بھی اپلوڈ روکنے کی طاقت نہیں ہے، جس پر جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ وہاں کی بات مت کریں۔

آئی جی پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے وزارت داخلہ سے بات کی، انہیں مراسلے لکھے، 700 سے زائد اکاؤنٹس پر یہ ویڈیوز چل رہی تھیں، ان کو بند کرنے کا اختیار پی ٹی اے کے پاس ہے، ہمارے پاس جتنی اتھارٹی ہے، ہم اس پر کام کرنا شروع ہو گئے تھے، ہم نے کچھ اکاؤنٹس کی شناخت کی، وہ ابھی تک ڈیلیٹ نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر ارادہ ہو تو سارے کام ہوتے ہیں،ہمارا کیوں ارادہ نہیں تھا۔

کسی طلبہ کے پاس مبینہ ریپ کا ثبوت نہیں ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ علاقے کے اے ایس پی کالج پرنسپل سے ملے، سی سی ٹی سی چیک کیا، ہر بچہ کہہ رہا تھا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، دوسرے کیمپس کے بچے بھی اس کیمپس پہنچ گئے، ایک منتظم طریقے سے یہ سب کچھ ہوا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ توڑ پھوڑ ہوئی تو وزیر اعلی مریم نواز نے ایک اسپیشل کمیٹی تشکیل دی، پیر کے دن تک کوئی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آیا، افواہ یہ ہے کہ مبینہ زیادتی 9 یا 10 اکتوبر کو ہوئی۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ 2 اکتوبر کو ایک بچی کا لاہور جنرل ہسپتال میں علاج ہوا، 4 اکتوبر کو یہ بچی ایک نجی ہسپتال میں جاتی ہے، بچی 5 دن آئی سی یو رہی، صرف یہ ایک بچی کالج نہیں آرہی تھی تو کسی نے کہا کہ ہمیں زیادتی کا شکار بچی مل گئی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ صرف یہ بنا پر کہ بچی کالج نہیں آ رہی اسے زیادتی کی افواہ سے جوڑ دیا گیا ہے، مزید کہا کہ اگر آپ کہیں گی تو میں آپ کی اس بچی سے ملاقات کروا سکتا ہوں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مزید مؤقف اپنایا کہ ایک اور صاحب نے جو خود کو وکیل کہتے ہیں ان بچیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ویڈیو بنائی، اس وکیل کو مجسٹریٹ کی جانب سے مقدمے سے بری کر دیا گیا۔

ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ مقدمے سے بری کرنے کا نیا رواج چل پڑا ہے، ہم جسے گرفتار کرتے ہیں وہ اگلے دن ہیرو بن جاتا ہے، ہم شاید اتوار کے دن تعین نہیں کر سکے کہ اتوار کو کیا ہونے جا رہا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک منظم طریقے سے ہوا، مگر جب یہ ہوا موقعہ پرستوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔

لاہور ہائیکورٹ نے حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے حوالے سے فل بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا، چیف جسٹس لاہور ہائیکوٹ عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ منگل کے روز فل بنچ ان کیسز پر سماعت کرے گا۔

انہوں نے حکم دیا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ان حالیہ واقعات کے حوالے سے تفتیش کریں۔

بعد ازاں، عدالت نے ڈی جی ایف ائی اے کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

واقعہ کا پس منظر

واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔

پیر کی شپ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔

اے ایس پی کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا۔