پاکستان

طالبہ سے زیادتی کا کوئی واقعہ وجود ہی نہیں رکھتا، نجی کالج انتظامیہ

سراسر پروپیگنڈا اور میڈیا اسٹنٹ کیا گیا، سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں موجود 98 فیصد طالبات متعلقہ کیمپس سے تعلق ہی نہیں رکھتیں، ڈائریکٹر نجی کالج۔

لاہور کے نجی کالج کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طالبہ سے زیادتی کا کوئی واقعہ وجود ہی نہیں رکھتا، سراسر پروپیگنڈا اور میڈیا اسٹنٹ کیا گیا، سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں موجود 98 فیصد طالبات کالج کے متعلقہ کیمپس سے تعلق ہی نہیں رکھتیں۔

لاہور کے نجی کالج میں مبینہ طالبہ سے مبینہ زیادتی کے واقعے کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ واقعہ کا 12اکتوبر کو علم ہوا، تحقیقات شروع کی گئیں، سوشل میڈیا دیکھ کر پولیس ہم سے خود رابطے میں آئی۔

انہوں نے کہاکہ واقعے کےحوالےسےسوشل میڈیا پر بہت سارے نام چل رہے تھے، ہم نےبچیوں کے گھروں میں رابطے کیے کچھ بھی ایسا نہیں ملا،اگرکسی نےایسا کچھ دیکھا ہےتوہمیں اس بچی سے متعلق بتائیں۔

کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم پورے پاکستان کے طلبہ کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بے بنیاد باتوں کے پیچھے لگ کر اپنے اداروں کو تباہ نہ کریں، اپنی ریاست کے خلاف نہ جائیں، افسوس کے ساتھ چیزوں کی اندھا دھند تقلید کی گئی، سوچے سمجھے بغیر اور حقائق کو جانے بغیر ٹرینڈ چل پڑا اور سب سے اسے فالو کیا۔

کالج کے ڈائریکٹر نے ایک سوال پر کہاکہ وزیرتعلیم ہی جواب دیں گے کہ تحقیقات کے بغیر انہوں نے بیان کیوں دیا۔

انہوں نے کہاکہ پولیس نے سوشل میڈیا پر دستیاب معلومات پر تحقیقات کا آغاز کرتے ہی ہم سے رابطہ کیا اور چھٹی پر گئے ہوئے چوکیدار کو حراست میں لیا، گرفتاری اس لیے نہیں ہوسکتی کہ جب تک کوئی واقعہ ہو ہی نہ تو پولیس ایف آئی آر کس پر کاٹے؟

انہوں نے کہا کہ چیزیں ایک سے دس ہوسکتی ہیں، دس سے 90 ہوسکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں معاملہ صفر سے سو تک پہنچا دیا گیا، انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا پر 8، 10 طالبات کے انٹرویوز وائرل ہوئے ہیں جو واقعے کی تفصیلات بتارہی ہیں تاہم ان میں 98 فیصد طالبات اس کالج کی نہیں ہیں، شاید کوئی ایک آدھ بچی ہے جو اس کیمپس سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے سوال کیا جب کوئی بچی اس کیمپس سے تعلق ہی نہیں رکھتی تو وہ واقعے کی تفصیلات کیسے بیان کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔

پیر کی شپ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔

اے ایس پی کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا۔