پاکستان

فضل الرحمٰن کا پیش کردہ آئینی پیکج کا مسودہ پی ٹی آئی کو موصول

پاکستان مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے مجوزہ آئینی پیکج پر اتفاق رائے کے لیے کی گئی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
|

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے گزشتہ روز ٹیلی فونک گفتگو میں مجوزہ آئینی پیکج پر اتفاق رائے کے لیے کی گئی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر اور جے یو آئی(ف) کے سربراہ کے درمیان گفتگو کے بعد اسد قیصر نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترمیم کا مسودہ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کو بھیج دیا گیا ہے۔

اسد قیصر نے کہا کہ یہ مناسب مسودہ ہے کیونکہ اس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق قانون سازی پر قدغن نہیں لگائی گئی، اس میں فوجی عدالتوں اور ججوں کے تبادلوں پر بات نہیں کی گئی ہے، آرٹیکل 8 اور آرٹیکل 199 میں ترامیم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت تحریک انصاف کو احتجاج ملتوی کرنے پر قائل کرنے کے بعد آئینی ترمیم منظور کرائے، تو اسد قیصر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ حکومت ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں نہیں ہیں اور 17 تاریخ کو واپس آئیں گے، اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ حکومت فوری طور پر ترمیمی بل پیش کرے گی۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جس میں آئینی پیکج کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے حوالے سے پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کو پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمٰن اور جے یو آئی (ف) کے دیگر رہنماؤں کے درمیان سرکاری اور نجی ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے 26 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے اقدامات پر بھی گفتگو کی۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گزشتہ ماہ سے ایک اہم آئینی ترمیم کی منظوری کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، 16 ستمبر کو آئین میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا تھا۔

کئی دن کی کوششوں کے باوجود بھی آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دی گئی تھی۔