پاکستان

کراچی: سندھ رواداری مارچ اور ٹی ایل پی کی پولیس سے جھڑپیں، ایک شخص جاں بحق

پولیس کا دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر ایکشن، مظاہرین پر شیلنگ اور لاٹھی چارج، مشتعل افراد نے پولیس موبائل نذرآتش کردی، ایک پولیس اہلکار زخمی، 30 افراد زیرحراست
|

کراچی میں سندھ رواداری مارچ اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی بیک وقت احتجاج کی کال کے باعث ریڈ زون میدان جنگ بن گیا۔

میٹرو پول ہوٹل کے قریب پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ کے دوران فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق اور ایک پولیس اہلکار سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے، مشتعل افراد نے پولیس موبائل کو آگ لگادی جبکہ پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 30 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔

واضح رہے کہ سول سوسائٹی نے عمر کوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے ماورائے عدالت قتل اور سندھ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف آج کراچی پریس کلب پر احتجاج کی کال دے رکھی تھی، جبکہ تحریک لبیک پاکستان نے بھی اسی مسئلے پر پریس کلب پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

پولیس نے احتجاج کی کال کے پیش نظر گزشتہ روز ہی سندھ بھر میں 5 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ہر قسم کے جلسے، جلوس اور احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگادی تھی، اتوار کی صبح ہی کراچی پریس کلب کو جانے والے تمام راستوں پر بھاری نفری تعینات کردی گئی تھی۔

عینی شاہدین کے مطابق اتوار کی شام ٹی ایل پی کے کارکنوں کی بڑی تعداد میٹروپول ہوٹل پر جمع ہوئی تاہم وہاں تعینات پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین کو پریس کلب جانے سے روک دیا کیونکہ وہاں پہلے ہی سندھ رواداری مارچ کے شرکا احتجاج کر رہے تھے اور فریقین کا آمنا سامنا ہونے سے امن و امان کی صورتحال بگڑنے کا خدشہ تھا۔

پولیس کی جانب سے ٹی ایل پی کےکارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال صورتحال کشیدہ ہونے کا باعث بن گیا، اس دوران فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور پولیس اہلکار سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ مبینہ طور پر مشتعل مظاہرین نے ایک پولیس موبائل کو بھی نذرآتش کردیا۔

تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان ریحان محمد خان نے ڈان سے گفتگو میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر براہ راست فائرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ سے کارکن ماجد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔

اس سوال پر کہ جب پریس کلب پر پہلے سے ایک مظاہرہ جاری تھا تو وہ وہاں کیوں جانا چاہتے تھے؟ ترجمان نے کہا کہ وہ (سول سوسائٹی) اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے تھے، انہوں نے سوال کیا کہ جب وہ گستاخی کے مرتکب شخص کے حامیوں کے خلاف پریس کلب جانا چاہتے ہیں تو انہیں کیوں روکا جارہا ہے؟

ادھر پولیس سرجن سمعیہ سید نے ڈان کو بتایا کہ مظاہرے کے مقام سے ایک شخص کی لاش جناح ہسپتال لائی گئی ہے جس کے سر پر گولی لگی ہے۔

قبل ازیں ڈی آئی جی جنوبی اسد رضا نے کراچی پریس کلب کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کراچی پریس کلب کے باہر سے فریقین کے 20 افراد کو حراست میں لیا ہے، حراست میں لیے گئے افراد میں تحریک انصاف کے رہنما علی پلھ، سورٹھ تھیبو اور دیگر بھی شامل ہیں۔

اس سے قبل کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کراچی پریس کلب آنے والی تمام سڑکیں اور راستے بسیں اور کنٹینر کھڑے کرکے بند کردیے، حتیٰ کہ رپورٹرز اور کیمرامین کو بھی پریس کلب آنے سے روک دیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر جنوبی نے کراچی پریس کلب کا دورہ کیا جہاں صدر پریس کلب سعید سربازی نے انہیں آگاہ کیا کہ کراچی پریس کلب پر دفعہ 144 کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ اس مقام کو ’ہائیڈ پارک‘ قرار دیا جاچکا ہے جہاں مظاہروں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

ڈپٹی کمشنر نے اصرار کیا کہ ہنگاموں اور فسادات کے خطرے کے پیش نظر نہ صرف کراچی بلکہ سندھ بھر میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے۔

سعید سربازی کے مطابق ڈپٹی کمشنر نے مزید کہا کہ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسلام آباد میں اہم غیرملکی شخصیات آرہی ہیں اور اس قسم کی صورتحال ملک کے بارے میں برا تاثر پیش کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے غیرملکی وفود وفاقی دارالحکومت میں موجود ہیں۔

سعید سربازی نے مزید کہا کہ پریس کلب انتظامیہ کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن سے رابطے کے بعد ڈی آئی جی جنوبی نے پریس کلب کا دورہ کیا اور تمام رکاوٹیں ہٹانے کے احکامات جاری کردیے۔

دوسری جانب سندھ رواداری مارچ کے شرکا اور عینی شاہدین نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مارچ کے شرکا کو روکنے کے لیے شاہراہ فیصل پر ایف ٹی سی، کورنگی روڈ پر قیوم آباد اور سپر ہائی وے پر ٹول پلازا سمیت دیگر مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

دوسری جانب ایم اے جناح روڈ پر کیپری سنیما کے قریب بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جو گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو روک کر تلاشی میں مصروف تھی۔

کلفٹن تین تلوار پر ہلال احمر میڈیکل سینٹر کے قریب بھی مظاہرین سے نمٹنے کے ساز و سامان سے لیس پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

ایچ آر سی پی کاگرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار

ادھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کراچی پولیس کے ہاتھوں سندھ رواداری مارچ کے متعدد شرکا کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ ’پولیس نے ایچ آر سی پی کے سربراہ اسد اقبال بٹ کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی اور انہیں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے روک دیا۔‘

کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار مظاہرین کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرکے سندھ رواداری مارچ کے شرکا کو کراچی پریس کلب پر احتجاج کی اجازت دی جائے۔

’سمجھ سے بالاتر ہے‘

سندھ کے وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار نے شہر بھر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کے حوالے سے خدشات ہیں اور دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی دن، ایک احتجاجی کال دی گئی جس سے تصادم کا خدشہ پیدا ہو گیا، مظاہرین کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی، لوگوں کو حراست میں لیا گیا اور مظاہرین کی طرف سے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا، جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ ایک پولیس وین کو بھی آگ لگا دی گئی۔‘

ضیاالحسن لنجار نے کہا کہ کراچی میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث انہوں نے دونوں گروپوں سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی تھی، ساتھ ہی افسوس کا اظہار کیا کہ ’اس طرح کے واقعات کا نقصان سندھ کے لوگوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تشدد ’سمجھ سے بالاتر‘ ہے۔

سندھ رواداری مارچ کے خلاف پولیس کی کارروائی صوبائی وزیر نے کہا کہ خواتین پر تشدد کی انکوائری کی جائے گی اور متعلقہ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز کے ورثا کی جانب سے مقدمات درج کرائے گئے اور کچھ پولیس افسران کو ضمانتیں بھی دی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مفرور پولیس افسران کو گرفتار کیا جائے گا، جبکہ اس قسم کا احتجاج محب وطن پاکستانیوں کے لیے درست نہیں۔‘