پاکستان

بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات، مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے مشاورت

آرٹیکل 175 اے کے تحت وفاقی آئینی عدالت قائم ہوگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جائے گا، پاکستان پیپلز پارٹی کا آئینی ترامیم کا مسودہ سامنے آگیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان ملاقات میں مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل سے جاری بیان کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر گئے اور ان سے مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے مشاورت کی۔

ملاقات کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے وفد میں پارٹی ترجمان اسلم غوری اور امیر جمعیت علمائے اسلام فاٹا مولانا جمال الدین شامل تھے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے وفد میں نوید قمر، مرتضیٰ وہاب اور جمیل سومرو شامل تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا آئینی ترامیم کا مسودہ سامنے آگیا جس میں آرٹیکل 175 اے میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام شامل ہے جو 5 ججز پر مشتمل ہے جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جائے گا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے آئینی ترامیم کے مسودے میں آرٹیکل 175 اے، بی، ڈی، ای، ایف میں ترامیم کی تجویز شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی کے ڈرافٹ کہا گیا ہے کہ ایک وفاقی آئینی کورٹ کے قیام عمل میں لایا جائے، وفاقی آئینی عدالت 5 ججز پر مشتمل ہوگی جس کی سربراہی چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کریں گے، ہر صوبے سے چیف جسٹس باری کی بنیاد پر آئینی عدالت کے چیف جسٹس مقرر ہوں گے۔

اس کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی، وفاقی آئینی عدالت کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہوگی، وفاقی آئینی عدالت کسی بھی صوبے میں عدالت لگا سکے گی۔

اس مسودے میں پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 ختم کرنے کی تجویز دی ہے، اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار ختم ہو جائے گا، وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا اور اس پر کسی بھی فورم پر اپیل نہیں ہو سکے گی۔

پیپلز پارٹی کے مسودے میں سپریم کورٹ ججز تقرری کے لیے آئینی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کا قیام عمل میں لایا جائے گا، صوبائی سطح پر ہائی کورٹس ججز کی تقرری آئینی کمیشن آف پاکستان کرے گی، سی سی پی چیف جسٹس آئینی عدالت اور دو سینئر ججوں پر مشتمل ہوگی، سی سی پی میں سپریم کورٹ کا ایک ریٹائر اور یا چیف جسٹس کا نامزد کردہ نمائندہ ہوگا۔

اس کے مطابق سی سی پی میں اٹارنی جنرل آف پاکستان بھی شامل ہوں گے، سی سی پی میں پاکستان بار کونسل کا نمائندہ قومی و سینیٹ کے 2،2 ارکان ہوں گے، وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں کے قیام، ججز کے تقرر کے لیے آئینی کمیشن کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے مسودے میں آئینی کمیشن میں چیف جسٹس آئینی عدالت اور دو سینیئر ترین جج شامل ہے، چیف جسٹس آئینی عدالت کی تجویز پر سپریم کورٹ یا آئینی عدالت کا ریٹائرڈ جج بھی شامل کرنے کی تجویز شامل ہے۔

مسودے میں کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ ایڈوکیٹ شامل کرنے کی تجویز ہے، سی سی پی کا کوئی بھی ممبر کسی جج کے تقرر کے لیے نام تجویز کرسکتا ہے۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 209 میں ججوں کو ہٹانے کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے، سی سی پی، چیف جسٹس، 2 سینئر ججز اور 2 صوبائی ججز پر مشتمل پر مشتمل کمیشن کو ججوں کو ہٹانے کا اختیار ہوگا۔

26ویں آئینی ترمیم پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس، مجوزہ ترمیم کا ڈرافٹ پیش

حکومت 25 اکتوبر سے قبل آئینی ترمیم منظور کرا لے گی، بلاول بھٹو زرداری

لچک دکھائی جائے تو آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے، مولانا فضل الرحمٰن