نقطہ نظر

’اسرائیل، جہاں نہتے شہریوں کا خون حکمرانوں کے ضمیر نہیں جھنجھوڑتا‘

اسرائیلی ایسی کوئی چیز نشر نہیں کرتے کہ جس سے ان کے تشخص کو نقصان پہنچے تو پھر انہوں نے دنیا کو غزہ میں جاری اپنے وحشیانہ مظالم کو نشر کرنے کی اجازت کیسے دے دی؟

اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کا نصب العین ان کی ویب سائٹ کے مطابق، ’دفاع ہمارا مشن ہے، سلامتی ہمارا مقصد ہے‘۔ اسے پڑھنے کے بعد تجسس ہوتا ہے کہ عبرانی زبان میں اس جملے کے پیچھے چھپے اصل معنی کیا ہوں گے۔

اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں نہتے شہریوں کا خون حکمرانوں کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتا۔ اس کے پیچھے ایک وجہ ہے۔ یہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کے لیے سب سے اہم اسرائیل کی بقا ہے۔ اور یہ کہ اگر اسرائیل کو اپنے مقصد کے تعاقب میں جارحیت سے کام لینا پڑا تب بھی وہ کرے گا۔ اس عمل کے دوران اگر شہریوں، کمیونٹیز اور ممالک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے تو یہ اسرائیل کا مسئلہ نہیں۔

حیرت انگیز طور پر دنیا نے اسرائیل کے نہتے لوگوں کو نشانہ بنانے کے ’حق‘ کو اپنی سرکاری پالیسی بنا لیا ہے۔ ایک منٹ کے لیے شہریوں کی شہادت کی ہولناک تعداد کا تصور کریں جب انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی لیکود حکومت نے یکم دسمبر کو خان یونس پر فضائی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا جس سے 50 رہائشی عمارتیں تباہ ہوگئیں۔

ہر ریاست کو حق ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کرے لیکن انٹرنیشنل قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس حق کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ مگر اسرائیل اس طرح کے کسی اصولوں کی پابندی نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیلی جارحیت سے عام شہری مارے جاتے ہیں تب بھی تل ابیب کی جانب سے افسوس یا معذرت خواہ بیان جاری نہیں کیا جاتا۔

درحقیقت آئی ڈی ایف تو ہسپتالوں، اسکولوں یا عارضی پناہ گاہوں پر بمباری کرنے سے پہلے ہی مطلع کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان جرائم سے اپنا دامن صاف کرلیتا ہے۔ ان واقعات کی واحد مذمت اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے یا شاذوناذر عالمی عدالت برائے انصاف کی جانب سے سامنے آتی ہے اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز، ہومین رائٹس واچ جیسی تنظیمیں بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتی ہیں۔

مجموعی صورت حال کو دیکھا جائے تو بہ ظاہر یہودی اب بھی یورپ میں اپنے 2 ہزار سال پرانے ماضی کو بھلا نہیں پائے ہیں۔ جدید دور نے انہیں کافی حد تک ریلیف فراہم کیا لیکن روس میں پُرتشدد یہود مخالف قتل عام اور نازی حکومت کے گیس چیمبرز جیسے مظالم کا سلسلہ 20ویں صدی تک جاری رہا جبکہ 70ء میں فلسطین سے بے دخل کیے جانے کی بنا پر ان کے ذہنوں میں یہ خیال پختہ ہوگیا کہ ’نہیں اب دوبارہ کبھی نہیں!‘ یہی تصور موجودہ دور میں اسرائیلی پالیسیوں میں جھلکتا ہے۔

گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے آئی ڈی ایف نے جن شہری اہداف کو نشانہ بنانے کا انتخاب کیا، اس حوالے سے آپ جتنا بھی گوگل پر سرچ کریں ان کی فہرست ادھوری ہی رہے گی۔ لیکن رواں سال مارچ تک اقوام متحدہ کے ریکارڈز میں سامنے آیا کہ ’غزہ میں اسرائیل نے 200 اسکولز کو نشانہ بنایا جن میں سے کم از کم 53 اسکولز مکمل طور پر تباہ ہوگئے‘۔

جولائی تک ’غزہ کی تمام 19 جامعات کو اسرائیلی کارروائیوں سے شدید نقصان اٹھانا پڑا جبکہ 80 فیصد جامعات کی عمارتیں تباہ ہوگئیں، 103 ماہر تعلیم شہید ہوئے جبکہ جامعات میں داخلہ لینے والے 90 ہزار طلبہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پائیں گے‘۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق غزہ کے 85 فیصد اسکولز اسرائیلی بمباری کا شکار ہوئے۔ ریسکیو ٹیموں نے بتایا کہ اسکولز حملوں کے شہدا میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہیں۔

ایک اور اہم المیہ جس کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ غزہ کی رہائشی عمارتوں پر اسرائیلی بمباری سے متعلق خدشات ہیں۔ اب تک تقریباً 43 ہزار فلسطینی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں فلسطینی شہریوں پر حملے کرنے کے علاوہ آئی ڈی ایف نے جبالیہ اور الشاتی کیمپس، ایمبولینسز سمیت الاہلی عرب ہسپتال، الشفا ہسپتال اور ناصر ہسپتال پر بھی بمباری کی۔

اسرائیلی، عوام میں اپنی ساکھ بنائے رکھنے کے معاملے میں ماہر ہیں۔ وہ عمومی طور پر ایسی کوئی چیز نشر نہیں کرتے کہ جس سے ان کے تشخص کو نقصان پہنچے۔ تو پھر انہوں نے دنیا کو غزہ کی پٹی میں جاری اپنے وحشیانہ مظالم کو ٹی وی پر نشر کرنے کی اجازت کیسے دی؟

درحقیقت اسرائیل نے اپنے ٹی وی چینلز پر غزہ میں رہائشی عمارتوں پر حملوں کو نشر کیا۔ ظاہر ہے یہ مناظر دکھانے کا مقصد دنیا کو واضح طور پر علی الاعلان یہ پیغام دینا تھا کہ ’ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو ہمیں روک سکے؟‘ انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

اسرائیل کی جانب سے مسیحی اور مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کو نشانہ بنائے جانے کی طویل فہرست ہے۔ غاصب قوت نے کم از کم 378 مساجد کو تباہ کیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے مساجد کو نقصان پہنچانے اور انہیں شہید کرنے کے 72 واقعات کی تصدیق کی۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے 15 دن سے بھی کم عرصے بعد اسرائیل نے سینٹ پورفی ریئس چرچ پر بمباری کی جہاں 500 افراد پناہ گزین تھے۔ 8 نومبر اسرائیل نے خان یونس میں عظیم جنگجو صحابی خالد بن ولیدؓ سے منسوب مسجد کو شہید کیا۔ نومبر میں کُل 60 مساجد کو شہید کیا گیا جبکہ دسمبر 2023ء میں غزہ کی سب سے بڑی مسجد کو اسرائیل نے نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ دیگر مساجد پر بھی بمباری کی گئی جن میں غزہ کی عمری مسجد، سید الہاشم، عثمان بن قشقار، کاتب الولایہ، البخاری، خلیل الرحمٰن، الانصار، احمد یاسین (جوغزہ کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں واقع تھی) اور خان یونس میں الامین محمد مسجد شامل ہیں۔ شہید مساجد کی فہرست لامتناہی ہے۔

جن گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا ان میں ہولی فیملی چرچ، بازنطینی چرچ آف جبالیہ اور سینٹ ہلاریون خانقاہ شامل ہیں۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس دور میں مسلمانوں کی دنیا پر حکمرانی تھی، اس دور میں یہودی امن اور سلامتی کے ساتھ رہے۔

سابق اسرائیلی وزیر خارجہ اور عربی اور عبرانی کے اسکالر ابا ایبان نے اپنی قابل ذکر کتاب ’My People‘ میں انہوں نے عرب-ترک دنیا میں یہودیوں کے قیام کو اپنا سنہری دور قرار دیا ہے۔ اس بات کے وہ کتنے شکرگزار ہیں، یہ آج غزہ کی پٹی میں صہیونی کارروائی سے واضح ہورہا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد علی صدیقی

مصنف ڈان کے بیرونی محتسب اور مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔