اداریہ: ’ایران نے اپنی مزاحمتی تنظیموں کو تنہا نہیں چھوڑا‘
منگل کی شب اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں کا آسمان اس وقت روشن ہوگیا کہ جب ایرانی میزائلوں کا ایک جتھا اسرائیلی دفاع کو توڑنے کی کوشش کرتا نظر آیا جبکہ صہیونی دفاعی نظام نے اپنی جانب آتے میزائلوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔
اپریل میں میزائل داغے جانے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ جب ایران نے براہِ راست اسرائیل پر حملہ کیا۔ اپریل میں پیش آنے والے واقعات کے بعد سے اسرائیل کچھ ماہ سے ایران کو ردعمل دینے کے لیے بھڑکا رہا ہے اور منگل کو تہران نے وہی کیا۔
شاید اب تک کا سب سے ذلت آمیز دھچکا ایران کو جولائی میں حماس سربراہ اسمعٰیل ہنیہ کی شہادت سے ملا جس کے حوالے سے وسیع تاثر یہی ہے کہ یہ تل ابیب کی کارروائی تھی۔ اسمعٰیل ہنیہ نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کرنے کے لیے ایران میں موجود تھے، اسلامی جہوریہ کے قلب میں ایک معزز ریاستی مہمان کا قتل، اسرائیل کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
بعدازاں لبنان میں جنگ اور گزشتہ ہفتے حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت بھی ایران کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ تہران کی زیرِ قیادت مشرقی وسطیٰ میں متحرک مزاحمتی تنظیموں میں حزب اللہ کو سب سے زیادہ طاقتور قوت کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور ان کے سربراہ کو شہید کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ مزاحمتی تنظیموں کا یہ محور ممکنہ خاتمے کی جانب گامزن ہے جبکہ تہران اپنے علاقائی اتحادیوں کی مدد کے لیے کھڑا نہیں ہوگا۔
یہ بھی اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ اقتدار میں موجود اصلاح پسند مغرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں، پھر چاہے اس کے لیے انہیں اپنی مزاحمتی تنظیموں کو کیوں نہ تنہا چھوڑنا پڑے۔ لیکن حالیہ میزائل حملوں نے اشارہ دیا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے خیال میں ’اسٹریٹجک بنیادوں پر صبر‘ کرنے کا مرحلہ ختم ہوچکا اور اب جواب دینے کا وقت ہے۔
حالیہ کارروائیوں نے مشرق وسطیٰ کو علاقائی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسرائیل نے تمام ریڈ لائنز عبور کرلی ہیں جبکہ جنگ بندی کے تمام منصوبوں کو بھی خارج از الامکان قرار دے دیا ہے۔ طاقت کے نشے میں چُور اور اپنے مغربی سہولت کاروں کی سرپرستی کے بھروسے پر وہ اس کے انتہائی برے رویے کی پردہ پوشی کریں گے، اسرائیل کو لگتا ہے کہ اسے قتل و غارت گری اور لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔
ایران کی اسٹرائیک کے بعد بیان بازی کے سلسلے میں تیزی آئی ہے جبکہ اسرائیلی رہنماؤں نے ایران کے جوہری اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ ایسی کوئی کارروائی بڑی غلطی کی جانب پیش قدمی ہوسکتی ہے۔
اس وقت جس عنصر کی ضرورت ہے وہ تناؤ کم کرنے کے لیے لبنان اور غزہ میں جاری وحشیانہ مظالم کو فوری طور پر لگام دینا ہے۔ لیکن امریکا اور برطانیہ جس طرح اپنے اتحادی کو روکنے کے بجائے اسے مزید بڑھاوا دے رہے ہیں، ایسے میں اس خطرناک تنازع کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جانا انتہائی مشکل ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔