پاکستان

منکی پاکس کے دو مریض بیرون ملک سے کراچی ایئرپورٹ پہنچ گئے

ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے، تقریبا ایک لاکھ پینسٹ ہزار افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ڈاکٹر عائشہ عیسانی
|

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے دو مشتبہ منکی پاکس کے مریض مسافروں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے، جہاں انہیں زیر نگرانی رکھا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں ذرائع نے بتایا کہ 44 سالہ اور 32 سالہ مسافر سعودی عرب سے واپس آئے تھے ، دونوں مسافروں میں ایئرپورٹ پر اسکریننگ کے دوران ان میں وائرل انفیکشن کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔

جن میں ایک مسافر میں ایم پاکس کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں۔

سندھ انفیکٹیئس ڈیزیز ہسپتال اور ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر نے بتایا کہ مسافر کی حالت بہتر ہے، جسے جلد ڈسچارج کردیا جائے گا، ذرائع کے مطابق دوسرے مسافر جو کہ کراچی کا رہائشی ہے، اس کی لیب رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے، اب تک ملک میں وائرل انفیکشن کے پانچ کیسز سامنے آئے ہیں۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق گزشتہ ماہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک لاکھ چھیالیس ہزار سات سو بائیس مسافروں کا معائنہ کیا گیا۔

پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ سرحدی صحت کی سروسز (بی ایچ ایس) کے اسٹاف کی تعداد کو بڑھا دیا گیا ہے، تعداد ایک ڈاکٹر سے بڑھا کر دو ڈاکٹرز کردی گئی ہے، جبکہ میڈیکل اسسٹنٹس کی تعداد بھی پانچ سے دس کردی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایئرپورٹ پر اسکریننگ کا عمل سولہ اگست سے شروع ہوا اور اب تک صرف ایک مسافر کو جس میں علامات ظاہر ہوئیں، جبکہ مزید معائنے کے لیے اکتیس اگست کو ہسپتال بھیجا گیا، ہر بین الاقوامی پرواز کے بعد امیگریشن اور بین الاقوامی لاؤنج کو دن میں دو سے تین بار ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بتایا کہ ممکنہ طور پر متاثرہ مسافروں کے معائنے اور قرنطینہ کے لیے دو اضافی کیبن قائم کیے گئے ہیں اور ایئرپورٹ پر بین الاقوامی آمد کی راہ میں معلوماتی اسٹینڈ بھی قائم کیے گئے ہیں۔

ایچ آئی وی

پاکستان ایشیا پیسیفک خطے میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی رفتار کے لحاظ سے دوسرے پر آ گیا ہے، اس کی بڑی وجہ کلیدی آبادیوں سے عمومی آبادی تک جنسی تعلقات کو وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ قرار دی جا رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی فنڈ (جی ایف) نے پاکستان کو ایچ آئی وی کے لیے اپنی 7.2 کروڑ ڈالرز کی امداد کا ذیلی وصول کنندہ نامزد کیا ہے، اور اب یہ فنڈز وفاقی حکومت کے بجائے اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور نجی شعبے کے ذریعے فراہم کیے جا رہے ہیں۔

ڈان سے بات چیت میں میڈیکل سائنس کے ادارے (پمز) کے ریڈیولوجی ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ڈاکٹر عائشہ عیسانی مجید نے یہ معلومات فراہم کیں۔

ڈاکٹر عائشہ عیسانی نے بتایا کہ دی لینسٹ کے مطابق پاکستان میں عمومی آبادی میں ایچ آئی وی سے احتیاط کی شرح کا اندازہ 0.1 فیصد سے کم لگایا جاتا ہے، جبکہ تقریبا ایک لاکھ پینسٹ ہزار افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، تاہم یہ وبا کلیدی آبادیوں میں مرکوز ہے، جن میں منشیات انجیکش کے ذریعے استعمال کرنے والے افراد (پی ڈبلیو ای ڈی)، جنسی تعلقات قائم کرنے والے مرد اور خواتین سیکس ورکرز، خواجہ سرا افراد، اور وہ مرد جو دوسرے مردوں سے ہم جنس تعلقات قائم کرتے ہیں، شامل ہیں۔

ریڈیولوجی ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ نے صورتحال کے حوالے سے مزید بتایا کہ جیلوں کی آبادی میں ایچ آئی وی کی شرح عمومی آبادی کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے، غیر محفوظ جنسی تعلقات، منشیات کا استعمال، اور سوئیوں کا مشترکہ استعمال جیسے عوامل یہاں عام ہیں، جو قیدیوں کو ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس، اور دیگر جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (ایس ٹی آئیز) کے شدید خطرے میں مبتلا کرتے ہیں، ان معلوم خطرات کے باوجود، جیلوں میں ایچ آئی وی کی صورتحال کا بڑی حد تک جائزہ نہیں لیا گیا، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) کا یہ اقدام صحت عامہ کے ڈیٹا میں اس خلا کو پُر کرنے کی ایک اہم پیش رفت ہے’۔

تاہم وزارت صحت کے حکام نے یو این ڈی پی کی شفافیت پر اعتماد کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ پاکستان اپنی بنیادی وصول کنندہ حیثیت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ایچ آئی وی کے بڑھتے ہوئے کیسز کو بہتر طریقے سے سنبھالا جا سکے، اس سے پہلے کہ یہ ہیپاٹائٹس اور ٹیوبرکیولاسز (ٹی بی) کی طرح قومی وبا کی شکل اختیار کر لے۔

ڈاکٹر عائشہ عیسانی نے قیدیوں میں بڑھتے ہوئے ایڈز اور ایچ آئی وی کے کیسز سے متعلق کہا کہ کیسز کے حوالے سے قیدیوں میں بڑھتی ہوئی تشویش کو دور کرنے کی غیر معمولی کوشش کے طور پر وزارت صحت کے تحت نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) نے پچیس اکتوبر 2021 سے پچیس نومبر 2021 تک راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ایچ آئی وی کی اسکریننگ اور ٹیسٹنگ کا کیمپ منعقد کیا۔

پاکستان جرنل آف پبلک ہیلتھ میں شائع ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ نے بتایا صرف 17 فیصد جواب دہندگان نے ایچ آئی وی کی منتقلی اور بچاؤ کے حوالے سے تمام پانچ سوالات کے درست جواب دیے، جبکہ 22.8 فیصد افراد نے ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزارنے والے لوگوں کے بارے میں زیادہ امتیازی رویہ ظاہر کیا، اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ایک جریدے ’ہیلتھ سائنس‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ایشیا پیسیفک خطے میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی دوسری تیز ترین شرح رکھتا ہے، جہاں تقریباً دو لاکھ دس ہزار افراد اس وقت ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، اس تعداد میں اکتالیس ہزار خواتین اور ایک لاکھ ستر ہزار مرد شامل ہیں، جن میں سے صرف 61 فیصد رجسٹرڈ ایچ آئی وی کیسز نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) کے ذریعے انسداد ریٹرو وائرل تھراپی (اے آر ٹی) حاصل کر رہے ہیں۔