پاکستان

پشاور ہائیکورٹ میں آئی پی پیز کے خلاف درخواست دائر

مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام بل ادا کرنے سے قاصر ہیں، جن آئی پی پیز کو اضافی ادائیگیاں کی گئی ہیں، ان سے واپس لی جائیں، درخواست گزار

پشاور ہائی کورٹ میں آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے خلاف درخواست دائر کردی ہے۔

درخواست سرحد چیمبر آف کامرس اور انڈسٹریل اسٹیٹ ایوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں وفاقی حکومت، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) اور آئی پی پیز کمپنیوں کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئی پی پیز سے معاہدے 1994 میں شروع ہوئے، معاہدے میں بجلی کی قیمت زیادہ طے کر کے قومی خزانے پر اضافی بوجھ ڈالا گیا۔

درخواست کے مطابق لوڈشیڈنگ تو کم ہوئی لیکن لوگوں کو معاشی طور پر برباد کردیا ہے۔

درخواست گزار نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام بل ادا کرنے سے قاصر ہیں، جن آئی پی پیز کو اضافی ادائیگیاں کی گئی ہیں، ان سے واپس لی جائیں۔

درخواست مزید میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پیزکا فارنزک آڈٹ کیا جائے، سینیٹ کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

واضح رہے 7 ستمبر کو وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا تھا کہ حکومت آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کر رہی ہے تاکہ بجلی کی ’بڑھتی ہوئی قیمتوں‘ کو کم کیا جاسکے۔

وزیر توانائی نے زور دیا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک خاص حد تک کاروباری سمجھوتہ کیے بغیر رعایت فراہم کرنی ہوگی اور یہ کام جتنا جلد ممکن ہو سکے کرنا ہوگا۔

رواں سال 18 جولائی کو سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری سے آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیوں کا ریکارڈ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کیا جائے، قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی ؟ آئی پی پیز کو ادا کی گئی کیپیسٹی پیمنٹس کا ریکارڈ بھی پبلک کیا جائے۔

گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں کس نرخ پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے؟ بجلی کی اصل قیمت 30 روپے فی یونٹ سے کم ہونی چاہیے، آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کیا جائے۔

ٹیک اینڈ پے ایک معاہدہ ہے جو خریدار کو کسی بھی پروڈکٹ کو لینے کا پابند بناتا ہے اور اگر پروڈکٹ نہیں لی جاتی ہے تو ان کو ایک مخصوص رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔

گوہر اعجاز نے بتایا تھا کہ 48 فیصد آئی پی پیز 50 فیصد پیداواری صلاحیت پر چلائے جا رہے ہیں، ان آئی پی پیز کو 21.12 کھرب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے، کچھ عرصہ پہلے تک ہم ان رپورٹس بارے لا علم تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کے نام پر کرپشن اور بد انتظامی کی جا رہی ہے، آئی پی پیز معاہدوں کو دیکھنے سے قبل معلوم نہیں تھا کہ ہمیں کس طرح لوٹا جا رہا ہے۔

ایک دہائی قبل ملک میں بجلی کی کمی کی وجہ سے آئی پی پیز کے درجنوں نجی منصوبے منظور کیے گئے تھے جن کی مالی اعانت زیادہ تر غیر ملکی قرض دہندگان نے کی، ان ترغیبی معاہدوں میں بلند ضمانتی منافع اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی کے وعدے شامل تھے۔

پاور سیکٹر سے تعلق رکھنے والے 4 ذرائع نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ معاہدوں میں تبدیلی کی تجاویز میں ضمانتی منافع میں کمی، ڈالر کی شرح کی حد بندی اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی نہ کرنا شامل ہے۔