عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی درخواست:’سمجھیں یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس ہے‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کی 5 ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سمجھیں یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر سماعت جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے کی، درخواست گزار فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق عدالت کے سامنے پیش ہوئے، عدالتی معاون زینب جنجوعہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔
ان کے علاوہ سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی بھی عدالتی حکم پر کمرہ عدالت میں حاضر ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور سینیٹر مشتاق بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی معاون کے دلائل پر ہمیں امریکی وکیل سے کچھ معلومات درکار ہوں گی۔
اس موقع پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ چیزوں کو کنفیوز نہ کریں، سیدھا سادہ جواب دیں آپ رپورٹ جمع کریں گے؟ منور دوگل نے جواب دیا کہ میں صرف حکومتی رائے عدالت کو بتا رہا ہوں۔
عدالتی معاون زینب جنجوعہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 28 تاریخ کو ہی عافیہ صدیقی کے وکیل اسمتھ نے اپنا جواب جمع کرایا ہے۔
اس موقع پر وزارتِ خارجہ نے رپورٹ جمع کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کردی۔
بعد ازاں عدالت نے وکیل اسمتھ سے استفسار کیا کہ آپ ڈاکٹر فوزیہ کی جانب سے امریکا میں کیس لڑ رہے ہیں؟ آپ امریکا میں کیس تو لڑ رہے ہیں مگر ہماری حکومت آپ کے ساتھ نہیں اور مہلت پر مہلت مانگ رہی ہے، ایک امریکی وکیل کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا، ایک غیر ملکی وکیل ڈاکٹر عافیہ کا کیس لڑ رہا ہے مگر ہماری حکومت کیا کررہی ہے؟
عدالتی معاون نے کہا کہ میں امید رکھتی ہوں کہ وفاقی حکومت کوئی مناسب حل نکالیں گی، اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ 3 سالوں سے یہ درخواست یہاں زیر سماعت ہے انہوں نے اب تک کیا کیا؟ ایڈیشنل اٹرانی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس سردار اسحق نے ریمارکس دیے کہ دوگل صاحب جو کچھ ہورہا ہے، سب کو نظر آرہا ہے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت یا وزارت خارجہ اسمتھ کے ساتھ عدالت میں کھڑے ہونے سے کترا رہی ہے، اس پر ایڈیشل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ کے ساتھ کھڑی ہے، مگر حکومت ایک باقاعدہ پروسیجر کے تحت چلتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ دوگل صاحب آپ یہ تقریر پارلیمنٹ میں کیوں نہیں کرتے؟ آپ کی تقریر سیاست دان کی ہے، ایڈیشنل اٹرانی جنرل نے بتایا کہ امریکا میں دائر درخواست ہمارے ساتھ اگر شیئر کی جائے تو ہمارے لیے آسانی ہوگی۔
اس پر امریکی وکیل نے دریافت کیا کہ اگر ان کو کاپی مل جائے تو یہ جواب جمع کرنے کے لیے کتنا وقت لگائیں گے؟ عدالت نے جواب دیا کہ میں ایک ہفتے سے آگے کا وقت نہیں دوں گا، کابینہ اجلاس بلانا ہے جو بھی کرنا ہے کریں، سمجھیں یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس ہے۔
بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے پانچ ہفتوں تک مہلت دینے کی استدعا کردی، عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی پانچ ہفتوں کی مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق درخواست پر وزارت دفاع کے جواب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا تھا۔
عافیہ صدیقی کے خلاف کیس
عافیہ صدیقی کو 2010 میں ایک امریکی وفاقی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی حراست میں تھیں، اس وقت فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ 6 دیگر الزامات کے تحت انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔
ان کے وکلا نے 12 سال کی سزا کی درخواست کی تھی جب کہ استغاثہ نے عمر قید کی سزا کے لیے دلائل دیے تھے۔
2009 میں ایک جیوری نے انہیں 7 الزامات پر مجرم قرار دیا تھا جن میں قتل کی کوشش کے 2 الزامات بھی شامل تھے، جیوری نے قرار دیا تھا کہ قتل کی کوشش کے الزامات میں کوئی پیشگی ارادہ نہیں تھا۔
استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی رائفل سے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عافیہ صدیقی نے بیان دیا تھا کہ وہ صرف کمرے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں، اس وقت وہ کسی خفیہ جیل میں منتقل کیے جانے کے خوف میں مبتلا تھیں۔
عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں امریکی تحویل میں منتقل کر دیا تھا، تاہم امریکی اور پاکستانی حکام دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔
عافیہ صدیقی نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور برینڈیز یونیورسٹی سے حیاتیات اور نیورو سائنس میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں جب کہ وہ 1991 اور جون 2002 کے درمیان امریکا میں مقیم رہیں، انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہتھیار پکڑنے یا اسلحے کے استعمال سے واقفیت رکھنے سے انکار کیا تھا۔
افغانستان میں دریافت ہونے سے قبل وہ مبینہ طور پر 5 سال تک لاپتا رہی تھیں۔