پاکستان

عمران خان نے وکلا، سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کیلئے متفرق درخواست دائرکر دی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ملاقاتوں سے متعلق 26 فروری کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کروایا جائے، درخواست میں مؤقف
|

بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) و سابق وزیراعظم عمران خان نے وکلا و سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے متفرق درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر دی۔

بیرسٹر علی ظفر کے ذریعے عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی، جس میں سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہےکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ملاقاتوں سے متعلق 26 فروری کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کروایا جائے، سیاسی رہنماؤں اور وکلا کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی ۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کے مطابق 6 وکلا اور 6 سیاسی رہنما ہفتے میں 2 دن ملاقات کرسکتے ہیں، جیل حکام فیصلے پر مکمل عملدرآمد نہیں کر رہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ درخواست گزار اس وقت کسی بھی مقدمے میں سزا نہیں کاٹ رہے، عمران خان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

استدعا کی گئی ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بنیادی حقوقِ کی خلاف ورزی پر عدالتی نوٹس لیا جائے، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر کارروائی کی جائے۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کی رپورٹ طلب کی جائے۔

یاد رہے کہ 18 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے عمران خان کی جیل ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈالنے پر اڈیالہ جیل حکام کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

دوران سماعت وکیل نے بتایا تھا کہ عمران خان اور ملاقات کرنے والوں کے درمیان بڑا شیشہ لگا دیا گیا ہے، کوئی دستاویز لے دے نہیں سکتے، اونچا بولنا پڑتا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ بالکل بھی قابلِ قبول نہیں ہے، کوئی دستاویز دیکھنے سے نہیں روک سکتے، آئندہ ایسا کیا گیا تو میں توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کروں گا، یہ انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔

26 اگست کو اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے عمران خان سے وکلا کی ملاقات نہ کرانے پراسلام آباد ہائیکورٹ کی توہین عدالت کی کارروائی کے خلاف جیل سپریم کورٹ سےرجوع کر لیا تھا۔

پس منظر

26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو اپنے وکلا سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

بعد ازاں 4 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے وکلا کی ملاقات نہ کرانے پر جیل انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر فریقین سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

12 مارچ کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کو دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے خدشے پر بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر 2 ہفتے کے لیے پابندی عائد کردی گئی ۔

یاد رہے کہ 13 مارچ کو مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات نہیں کروانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جسٹس سمن رفعت امتیاز نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو 15 مارچ کے لیے نوٹس بھی جاری کردیا تھا۔

اس موقع پر درخواست گزار علامہ ناصر عباس کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 8 مارچ 2024 کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کے احکامات جاری کیے تھے مگر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے جان بوجھ کر حکم عدولی کرتے ہوئے ملاقات نہیں کروائی لہذا سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

22 مارچ کو عدالتی احکامات کے باوجود بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔