مصطفیٰ کمال کیخلاف کلفٹن میں غیر قانونی الاٹمنٹ ریفرنس بحالی کی نیب کی درخواست مسترد
کراچی کی احتساب عدالت نے رہنما متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان مصطفیٰ کمال پر کلفٹن میں غیر قانونی الاٹمنٹ ریفرنس بحالی کی نیب کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے نیب کی ریفرنس بحالی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نیب کی ریفرنس بحالی کی درخواست مسترد کر دی۔
اس موقع پر مصطفی کمال نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے 5 سالوں بعد عدالت سے ریلیف ملا ہے اور میں پانچ سالوں سے عدالت کی پیشیاں بھگت رہا تھا، مجھ پر یہ الزام تھا کہ میں نے غیر قانونی طور پر زمین الاٹ کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ریفرنس نجی زمین پر بنایا گیا تھا اور وہ آج بھی نجی زمین ہے، مزید کہنا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے کہ جس کو قتل کیا گیا ہو وہ باہر ہمارے سامنے گھوم رہا ہو۔
رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ نیب چونکہ کرپشن سے متعلق ارادہ ہے تو اس وجہ سے مجھ پر کرپشن کا الزام بھی لگایا گیا جبکہ میرے پاس ایک گز زمین بھی نہیں ہے، 15 سال کے بعد مجھے نیب عدالت میں کھڑا کیا گیا میں نے اللہ کے ڈر سے ایک نوالہ بھی اپنے بچوں کو حرام کا نہیں کھلایا۔
مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ پانچ سالوں میں کوئی ایک گواہ تک نہیں لایا گیا اور نہ ہی میرے خلاف ایک روپے کی کرپشن ثابت ہوسکی، اللہ پاک نے مجھے ان سب چیزوں سے بچایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شریف ہے جس کو موقع نہیں ملا ہو مجھے ڈکیتی کرنے کا موقع ملا لیکن میں نے نہیں کی۔
رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ میں اپنے ساتھ ظلم کرنے والوں کو معاف کرتا ہوں، مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ اس طرح سے یہ نظام نہیں چل سکتا، آج ملک کا حال دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے،یہ کیا مذاق لگا رکھا ہے اس ملک کے ساتھ، یہ نظام مزید ایسے نہیں چل سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داری تو عدالت کی بھی تھی، ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ اس میں کوئی گواہ نہیں ہے، نیب نے خود کہا ہے کہ مصطفیٰ کمال کو اس میں مالی فائدہ نہیں ہوا۔
مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ آج ہمارا ملک سنبھل نہیں رہا اور اسے مصنوعی طریقے سے اس کو چلایا جارہا ہے، ملک کو جوڈیشل ریفارمز کی ضرورت ہے، 2019 میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں، سیاست دانوں کو خود پہلے ٹھیک ہونا پڑے گا پھر ہی کچھ اچھا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں فسادات ہو رہے ہیں اور ماضی میں بھی اس طرح کے مسائل رہیں ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس طرح کے شر پسند عناصر کو پکڑنا چاہیئے، وفاقی حکومت ہمیں اگنور کررہی ہے، ہمیں ہمارا شیئر نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ 21 نومبر 2020 کو کراچی کی احتساب عدالت نے کثیرالمنزلہ عمارت کے لیے بحریہ ٹاؤن کو کمرشل اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق کیس میں سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال اور دیگر 9 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تھی۔
ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ مصطفیٰ کمال اور دیگر کے خلاف ساحل سمندر پر ساڑھے 5 ہزار مربع گز زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ کا الزام ہے۔