پاکستان

سیاسی دباؤ میں اضافے کے سبب نئے آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد میں چلینجز درپیش

ملک کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے، تجزیہ کار

رواں مالی سال کا ٹیکس سے بھرپور بجٹ اور مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے توجہ سیاست سے معیشت کی جانب مبذول ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے نئے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی شرائط پوری کرنے کی ملک کی صلاحیت پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے 28 ارب ڈالر قرضے کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے چین کی مدد کا خواہاں ہے، تاہم ذرائع کا خیال ہے کہ چین ان قرضوں کی تنظیم نو نہیں کرے گا، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ دیگر ممالک جیسا کے سری لنکا بھی بیجنگ سے قرضوں کی ری پروفائلنگ کی درخواست کر سکتا ہے۔

ایک سینئر محقق نے بتایا کہ یہ اس بات کا تعین بہت اہم ہے کہ آیا حکومت 7 ارب ڈالر قرض کے معاہدے کی شرائط کو پورا کر سکتی ہے یا نہیں، بہر حال مجھے یقین ہے کہ حکومت کسی بھی قیمت پر اس معاہدے پر دستخط کرے گی۔

بینکرز اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

ایک سینئر بینکار نے بتایا کہ حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرکے صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے، مزید نوٹ کیا کہ صرف بینک اور ایکویٹی مارکیٹ ’بدترین معیشت‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاریخی منافع حاصل کر رہے ہیں۔

اس کے برعکس ٹیکسٹائل جیسے شعبے ٹیکس میں کمی اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، برآمد کنندگان بھی اپنی آمدنی پر نئے ٹیکسوں سے غیر مطمئن ہیں۔

بینکر نے سوال اٹھایا کہ مالی سال 2024 کے لیے سالانہ مہنگائی کی شرح 23.4 فیصد رہی، جس سے حقیقی شرح سود منفی 3 فیصد ہو گئی، ہم معیشت کو پروان چڑھانے کے لیے مستقبل میں شرح سود میں کسی بڑی کٹوتی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟

ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک سے کہا ہے کہ وہ مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھے، جس کا مطلب ہے کہ شرح سود میں جلد کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں دیا جائے گا۔

کاروبار کرنے کی بلند لاگت پہلے ہی مالی سال 2023 میں معاشی سکڑاؤ کا باعث بنی ہے، جبکہ شرح نمو مالی سال 2024 میں محض 2.4 فیصد رہی۔

ایک تجزیہ کار نے نوٹ کیا کہ اگر سیاسی صورتحال بدستور غیر مستحکم رہتی ہے، تو مالی سال 2025 میں نمایاں نمو حاصل نہیں ہوسکے گی، جس کے نتیجے میں بے روزگاری میں ضافہ اور سیاسی بے یقینی بڑھے گی، آئی ایم ایف نے رواں مالی سال معاشی نمو 3.5 فیصد اور فچ ریٹنگ نے 3.2 فیصد بڑھنے کی پیشگوئی کی ہے۔

ٹریس مارک کے چیف ایگزیکٹیو فیصل مامسا بدستور پُرامید ہیں کہ آئی ایم ایف ڈیل سے فنڈنگ کے اضافی ذرائع کا راستہ کھلے گا، نتیجتاً روپیہ مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے۔

تاہم، انہوں نے ملک میں سیاسی اور سماجی چیلنجوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، جو آئی ایم ایف کی شرائط کے کامیاب نفاذ کو مشکل بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موڈیز کے مطابق پاکستان کو تاریخی طور پر آئی ایم ایف کے پروگراموں کے لیے درکار اسٹرکچر اصلاحات کو نافذ کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے، جس سے موجودہ معاہدے کی مؤثریت پر بھی شک پیدا ہوتا ہے۔

فیصل مامسا کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے ساتھ ڈیل کے باوجود کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کی نجکاری ہوئی ہے، مزید کہا کہ غریب مخالف بجٹ طویل مدت میں پائیدار نہیں ہو سکتا۔