پاکستان

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دو، بجلی پر ٹیکس لگادو، کیا یہ طریقہ ہے؟ شہباز شریف

وہ شعبے جو دھیلا ٹیکس نہیں دیتے، ان پر ٹیکس لگائیں، قوم کو بتائیں کہ یہ وہ ایریاز ہیں، جن پر کبھی ٹیکس نہیں لگایا گیا، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دو، آئی فون پر ٹیکس لگا دو، بجلی پر ٹیکس لگادو، کیا یہ طریقہ ہے؟

اسلام آباد میں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ایف بی آر ہیڈکوارٹر میں منعقدہ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر وزارت خزانہ کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، ہم نے معیشت کو مستحکم کرنا ہے، اس کے لیے مشکل سفر طے کرنا ضروری ہے، اس کے لیے ہمیں تحمل، برداشت اور قربانی کا مظاہرہ کرنا لازمی جز ہے، اس کے بغیر یہ سفر مکمل نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے ہوا، اس کے بعد ان کا بورڈ بیٹھے گا اور اس کی منظوری دے گا، اب ہماری ذمہ داری کا آغاز ہوا چاہتا ہے، ہمیں شبانہ روز محنت کرنا ہوگی، تب ہی یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، جس کے بعد ترقی اور خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو یقیناً اللہ کے فضل و کرم سے اجتماعی کاوشوں سے انشا اللہ پاکستان ایک عظیم، خوشحال اور قابل احترام ملک بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو قرضوں سے جان چھڑانی ہے، آئی ایم ایف کے اس پروگرام کو ہم نے آخری پروگرام تصور کرنا ہے، جو ٹیکس دیتے ہیں ان پر مزید ٹیکس عائد کریں گے تو یہ ان کے لیے جرمانہ ہوگا جو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں، جبکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے لیے پریمیم ہوگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ جب تک یہ بات ہمارے دلوں اور دماغوں میں نہیں ہوگی تو بات نہیں بنے گی، آپ آسان کام لیں گے اور ٹیکس لگائیں گے کہ انہوں نے تو ریٹرن فائل کرنی ہی ہے کیونکہ یہ سرکاری ملازم ہے، یہ کہاں جائے گا، اس طرح کبھی ملک ترقی نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی ترقی و خوشحالی کے لیے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے آپ کو (ایف بی آر) پوری حکمت عملی تبدیل کرنی ہے، اور آج دنیا میں جدید ترین جو ٹیکنالوجی ہے، ایف بی آر کے ہم پلہ باقی ملکوں میں جو ادارے ہیں، انہوں نے جو حکمت عملی بنائی ہے، اس کو آپ نے اپنانا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اربوں، کھربوں روپے آپ (ایف بی آر) اکٹھے کرتے ہیں اور چند ارب روپے کے لیے عالمی بینک یا دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ قومیں اس طرح نہیں بنتیں، آج پیراڈائم شفٹ کا وقت آ چکا ہے، مہربانی کرکے قوم کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر میں جو اصلاحات یا تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اس میں میری کسی فرد کے لیے کوئی ان پٹ نہیں، جو سفارشات آپ لوگوں نے کی ہیں، اس کو ہی لے کر چل رہے ہیں، میری کوئی ذاتی پسند و ناپسند نہیں ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کسی کے خلاف نہ کسی کے حق میں، جو قومی مفاد کو لے کر چلیں گے اور اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو بتائیں ہم اس کو ٹھیک کریں گے لیکن سفارش کا سوال پیدا نہیں ہوتا، میں چلا جاؤں گا، میں اکومڈیٹ نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجٹائزیشن کا سفر اب شروع ہو چکا ہے، پرسوں چیئرمین ایف بی آر نے ایک اور نیا سرپرائز دیا، اگر کوئی بات تھی تو مجھے تین مہینے پہلے بتادیتے کہ یہ عالمی بینک کے ذریعے ہوا تھا، ہمیں بتادیتے تو ہم میکنزی کو لانے کے لیے سوچتے، کہ لانا ہے یا نہیں لانا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے چیئرمین ایف بی آر سے گزارش کی ہے کہ ابھی بھی اگر چیزیں آپ نے مخفی رکھی ہوئی ہیں، آپ انہیں سامنے لائیں، میں کچھ نہیں کہوں گابلکہ آپ کو شاباش دوں گا کہ دیر آئے درست آئے، اگر آپ نے اب بھی چیزوں کو چھپایا تو میں برداشت نہیں کروں گا، اس لیے آپ سے دست بستہ عرض ہے کہ آپ اس کو لے آئیں، ہم اس کو لے کر چلیں گے۔

’وہ شعبے جو دھیلا ٹیکس نہیں دیتے، ان پر ٹیکس لگائیں‘

انہوں نے کہا کہ وہ شعبے جو دھیلا ٹیکس نہیں دیتے، ان پر ٹیکس لگائیں، قوم کو بتائیں کہ یہ وہ ایریاز ہیں، جن پر کبھی ٹیکس نہیں لگایا گیا، اب زرعی ٹیکس کو دیکھیں، 1997 میں پاکستان میں پہلی بار پنجاب میں زراعت پر ٹیکس مسلم لیگ (ن) نے لگایا تھا، آج 27 سال گزر گئے لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تنخوہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دو، آئی فون پر ٹیکس لگا دو، بجلی پر ٹیکس لگادو، کیا یہ طریقہ ہے؟ ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ فیصلہ کیا کہ ہم بالکل ٹیکس لگائیں گے، ہم نے صوبوں کے ساتھ مشاورت کی، انہوں نے بھی بات کو سمجھا، ہم نے ان سے کروایا۔

انہوں نے کہا کہ دل میں اگر جذبہ ہو، تڑپ ہو اور یہ محسوس کرے کہ یہ ملک کے مفاد میں ہے تو چیزیں سہل ہو جاتی ہیں۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ موجودہ مالی سال کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف 130 کھرب روپے اپنی جگہ ہے، اس کو نافذ کریں گے اور تاجروں کو تنگ نہیں کریں گے، انفورسمنٹ کے نام پر آپ میری بدنامی کروائیں یہ نہیں ہوگا، آپ نے ان کو سہولت دینی ہے اور ان کی عزت کرنی ہے، اور جس پر ٹیکس بنتا ہے، خواہ کوئی بھی ہو، اس کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لا کر اسے اکٹھا کریں۔