سپریم کورٹ کا فیصلہ سینیٹ انتخابات پر اثرانداز نہیں ہوگا، قانونی ماہرین
اگرچہ گزشتہ روز آنے والا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اپریل میں تینوں صوبوں کی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں منعقد ہونے والی سینیٹ انتخابات اثرانداز نہیں ہوگا لیکن خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایوانِ بالا کی سب سے بڑی جماعت بننے جارہی ہے۔
آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ اپریل میں منعقد ہونے والے سینیٹ انتخابات پر کسی طرح کے اثرات مرتب نہیں کرے گا کیونکہ یہ فیصلہ 6 مئی 2024 سے نافذالعمل ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھے گئے سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کے تیسرے پیراگراف کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے ڈان کو بتایا کہ ان کی رائے میں حالیہ سینیٹ انتخابات پر یہ فیصلہ اثرانداز نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران کسی بھی موقع پر سینیٹ انتخابات کو چیلنج یا ان پر سوالات نہیں اٹھائے گئے۔
یہ فیصلہ 6 مئی سے نافذالعمل ہوگا جوکہ وہی تاریخ ہے کہ جب سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔
تیسرے پیراگراف کے مطابق، ’نوٹیفکیشنز (مختلف تاریخ پر جاری ہونے والے) جن میں بالترتیب لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں (ان افراد کی شناخت کمیشن کے نوٹیفیکیشن نمبر ایف 5 (1)/2024-کورڈ، جوکہ 13 مئی 2024ء کو جاری کیا گیا)، انہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دینا آئینی دائرہ کار میں غیرقانونی ہے اور 6 مئی 2024ء کے بعد سے وہ ان نشستوں کے قانونی طور پر اہل نہیں رہے، 6 مئی کو جب عدالت کی جانب سے سی پی یال اے نمبر 9-1328 آف 2024ء کا عبوری حکم جاری ہوا، اسے اور اس سے متعلقہ درخواستوں کو منسوخ کردیا ہے‘۔
6 مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی سپریم کورٹ کے ججز کے بینچ نے 14 مارچ کو کیے گئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیا اور ساتھ ہی یکم مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کے وضاحت کی تھی کہ متنازع نشستوں سے متعلق عبوری حکم کے تحت سیاسی جماعتوں کو اپنی مختص مخصوص نشستوں پر اضافی نشستیں فراہم کی گئیں، یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس حکم کا اطلاق 6 مئی 2024ء سے ہوچکا ہے۔
ڈان نے اس حوالے سے سینیئر وکیل کاشف علی ملک سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے فاتح تمام اراکین کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے جنہوں نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی انتخابی کارروائیوں میں حصہ لیا اور مخصوص نشستوں کے حقدار ٹھہرے۔
تاہم ایک اور سینیئر وکیل جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، محسوس کیا کہ ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کا کوئی جواز نہیں جو 6 مئی کے بعد سے مخصوص نشستوں کے حق دار قرار پائے۔
ان کے خیال میں یہ آئین کے آرٹیکل 25 کی رو کے خلاف ہے جوکہ مساوات کو یقینی بناتا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ ’غیرقانونی اقدامات سے ایوان کا حصہ بننے والے کسی شخص کا انتخاب کچھ عرصے کے لیے کیسے قانونی اور پھر غیرقانونی قراردیا جاسکتا ہے؟‘
سینیئر وکیل شاہ خاور نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو تحفظ فراہم کرکے مزید قانونی جنگ اور ممکنہ آئینی بحران کے خطرے کو ٹالا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری شفقت تارڑ کا خیال ہے کہ سینیٹ انتخابات پر اس فیصلے کے اثرات اس وقت مرتب ہوتے، جب سپریم کورٹ اس تاریخ سے اس فیصلے کو معطل کرتی کہ جب امیدواروں کی کامیابی کے نوٹیفکیشنز جاری ہوئے تھے۔
سینیٹ کی خالی نشستوں پر انتخابات 2 اپریل کو منعقد ہوئے تھے، اس وقت الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں انتخابات کو مؤخر کیا تھا کہ جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جس کی وجہ صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر اپوزیشن کے قانون سازوں کے حلف اٹھانے پر کھڑا ہونے والا تنازع بنا۔
انتخابات کے بعد ایوانِ بالا کے اراکین کی مجموعی تعداد 66 سے بڑھ کر 85 ہوگئی جن میں سے 59 اراکین کا تعلق حکمران اتحاد سے ہے۔
24 سینیٹرز کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ایوان کا ایک چوتھائی حصہ ہے لیکن خیبرپختونخوا کی 11 نشستوں پر انتخابات کے انعقاد کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی پوزیشن کو دیکھیں تو یہ توقع ہے کہ جماعت 11 میں سے 9 نشستیں جیت جائے گی۔
اس وقت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے 19، 19 سینیٹرز ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور عوامی نیشنل پارٹی کے 3،3 سینیٹرز ہیں، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک سینیٹر ایوانِ بالا کا حصہ ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد اور خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ان کی تعداد 28 تک پہنچ جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایوانِ بالا کی سب سے بڑی انفرادی جماعت بن کر ابھرے گی۔