دنیا

مغربی ممالک سے مقابلے کیلئے چین اور روس کا یوریشیائی ممالک کے مابین تعاون کے فروغ پر زور

چین کے صدر شی جن پنگ اور ولادیمیر پیوٹن نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں یوریشیائی ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ پر بھی زور دیا۔

چین کے صدر شی جن پنگ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک کے اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے یوریشیائی خطے کے ممالک کے درمیان قریب تر سیکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ان خیالات کا اظہار دونوں رہنماؤں نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوسرے اور آخری دن کیا جہاں اس تنظیم کی بنیاد 2001 میں روس، چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں نے رکھی تھی اور اب اس میں ایران، پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔

چین کی ژن ہوا نیوز ایجنسی نے کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ نے مغرب کی ’سرد جنگ کی ذہنیت‘ سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کو اتحاد کو مضبوط بنانا چاہیے اور مداخلت اور تقسیم کے حقیقی چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے بیرونی مداخلت کی مخالفت کرنی چاہیے۔

روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے اپنے خطاب میں روس کی جانب سے یوریشیا کے ممالک کے درمیان تعاون، ناقابل تقسیم سلامتی اور ترقی کا ماڈل پیش کیا تاکہ مغرب کے فرسودہ یورو سینٹرک اور یورو-اٹلانٹک ماڈلز کا مقابلہ کیا جا سکے جو صرف مخصوص ریاستوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

انہوں نے ایک بار پھر یوکرین کی جنگ کے لیے مغرب کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اگر کییف اور اس کے حامی مذاکرات کے لیے ماسکو کی شرائط کو تسلیم کرتے ہیں تو روس اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک تیل اور گیس جیسی روسی اشیا کے نئے اہم خریدار ہیں کیونکہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس پر عائد مغربی پابندیوں نے ماسکو کو ایشیا کی منڈیوں کی طرف رخ کرنے مجبور کردیا۔

پیوٹن نے جمعرات کو شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے درمیان تجارت میں ڈالر کے بجائے مقامی کرنسیوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کو بھی سراہا اور گروپ کے اندر ادائیگی کا نیا نظام بنانے پر زور دیا۔

مغربی پابندیوں نے ماسکو کو ’سوئفٹ‘ جیسے ادائیگی کے روایتی نظام سے روک دیا ہے جبکہ روس کے سینکڑوں ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائر بھی منجمد ہیں۔

روسی صدر نے کہا کہ اب دنیا کے اکثر ممالک ایک منصفانہ عالمی نظام کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے قانونی حقوق اور روایتی اقدار کا بھرپور طریقے سے دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔