پاکستان

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا مسئلہ تاحال حل نہ ہوسکا

13 جون کو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے ایوان زیریں کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) سمیت 40 قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔

تشکیل کے دو ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اب بھی چیئرپرسن سے محروم ہے کیونکہ مخلوط حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان نشست کے لیے رسہ کشی جاری ہے، جو روایتی طور پر پارلیمان کے ایوان زیریں میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کے پاس جاتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 13 جون کو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے ایوان زیریں کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) سمیت 40 قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی تھیں لیکن 10 کمیٹیاں مختلف وجوہات کی بنا پر تاحال چیئرمین سے محروم ہیں، یہ کمیٹیاں 3 مارچ کو وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد 30 دن کے اندر تشکیل دی جانی تھیں لیکن یہ 3 ماہ تک مؤخر کر دی گئیں۔

پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ حکومت پی اے سی چیئرمین کے انتخاب میں غیر معمولی تاخیر کا باعث بن رہی ہے حالانکہ پارٹی پہلے ہی پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی شیخ وقاص اکرم کا نام اس عہدے کے لیے دے چکی ہے۔

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اس عہدے کے لیے چار امیدواروں کا پینل پیش کرنا پڑا کیونکہ پارٹی نے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے بجائے کسی اور کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی عامر ڈوگر نے کہا کہ انہوں نے اپنے مسلم لیگ (ن) کے ہم منصب طارق فضل چوہدری سے ملاقات کی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ پی اے سی چیئرمین کے عہدے کے لیے وقاص اکرم ہی ان کے واحد امیدوار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے دوبارہ پی ٹی آئی سے کہا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے کم از کم 4 امیدواروں کا پینل پیش کرے کیونکہ حکمران اتحادی جماعتیں، جیسے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ، بھی اسی عہدے کی خواہاں ہیں، اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی پی اے سی کی چیئرمین شپ پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہے۔

عامر ڈوگر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے ایک بار پھر فیصلہ کیا ہے کہ شیخ وقاص اس عہدے کے لیے ان کے واحد امیدوار ہوں گے اور اس سلسلے میں کوئی پینل نہیں بنایا جائے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے انتخابات میں تاخیر کی ذمہ دار حکومت اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ہیں، عامر ڈوگر کے مطابق، حکومت اور اس کے شراکت دار اس بات پر متفق ہیں کہ اتحادی شراکت دار صرف 4 امیدواروں کے پینل سے ایک نام قبول کریں گے۔

رابطہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے کہا کہ حکمران جماعت نے روایت کے مطابق اور مئی 2006 میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کے مطابق اپوزیشن جماعت سنی اتحاد-پی ٹی آئی کو پی اے سی کی چیئرمین شپ کی پیشکش پر رضامندی ظاہر کی ہے، انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو اپنے نامزد امیدواروں کا پینل پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اس نشست کے لیے قائد حزب اختلاف کا نام آگے نہیں دیا۔

پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ حکومت پی اے سی چیئرمین کے انتخاب میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے کیونکہ وہ اپنے نامزد کردہ امیدوار کی بجائے کسی اور پارٹی سے چیئرمین کا انتخاب کرنا چاہتی ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے شیخ وقاص اکرم کا نام تقریباً پانچ ماہ قبل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں پیش کیا تھا لیکن حکومت جو کہہ رہی ہے اس کے برعکس کر رہی ہے۔

اس سے قبل، پی ٹی آئی نے اپنے فائر برینڈ رہنما شیر افضل مروت کا نام پی اے سی کے چیئرمین کے طور پر پیش کیا تھا لیکن پی ٹی آئی کے بانی عمران خان، جو کہ جیل میں ہیں، نے ان کا نام اس وقت واپس لے لیا جب شیر افضل مروت نے سعودی حکومت کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کو گرانے میں میں ان کے کردار کا الزام لگایا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ شیر افضل مروت پی اے سی کے رکن بھی نہیں ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق پی اے سی کے ارکان میں سردار یوسف زمان، وزیر دفاع خواجہ آصف، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، جنید انور چوہدری، شیزرا منصب کھرل، رضا حیات ہراج، مسلم لیگ (ن) کے رانا قاسم نون شامل ہیں، پیپلز پارٹی کی جانب سے مرتضیٰ محمود، شازیہ مری، سید حسین طارق، سید نوید قمر، حنا ربانی کھر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، ثنا اللہ مستی خیل، جنید اکبر، ریاض خان، شیخ وقاص اکرم، عامر ڈوگر اور ایس آئی سی کے خواجہ شیراز محمود، ایم کیو ایم پی کے معین عامر پیرزادہ، اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی شاہدہ بیگم نے شامل ہیں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اپنے عہدے کے باعث پی اے سی کے رکن ہوں گے، علاوہ ازیں چیئرمین سینیٹ کمیٹی کے لیے 8 سینیٹرز بھی نامزد کریں گے۔