پاکستان

مخصوص نشستوں کا کیس: آمر آئے تو ساتھ ہوجاتے، جمہوریت آئے تو چھریاں نکال لیتے ہیں، چیف جسٹس

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر مزید سماعت 27 جون بروز جمعرات ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
|

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔

سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کیا جارہا ہے۔

سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دریافت کیا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دے دیں، وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں چیئرمین حامد رضا کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے، سنی اتحاد کونسل کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزادامیدوار انتخابات لڑے، جمعیت علمائے اسلام (ف) میں بھی اقلیتیوں کو ممبر شپ نہیں دی جاتی۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کردےگا۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔

وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی عدالت میں پیش کر دیے، چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں۔

اس کے ساتھ ہی مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیاگیا، کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی، 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی، الیکشن کمیشن کنفرم کرےگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے حامد رضا نے سنی اتحاد کی جانب سے کاغذات نامزدگی نہیں جمع کروائی؟ اس پر سنی اتحاد کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا گیا، سنی اتحاد کا نشان گھوڑا ہے، جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کہ حامد رضا کو گھوڑے کا نشان کیوں نہیں ملا؟ وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے زبردستی ٹاور کا نشان حامد رضا کو دیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ دستاویزات کیوں جمع نہیں کروا رہے؟ ہم سوال ہی نہیں پوچھتے آپ سے پھر، ایسے نہیں چلےگا۔

بعد ازاں جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل نے بتایا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے، سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی، انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے والے ہی بعد میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔

بعد ازاں وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔

’حیران کن بات ہے سلمان اکرم اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات نہیں کی‘

انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیران کن بات ہے کہ سلمان اکرم راجا اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائی کورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال آرٹیکل 51 کی تشریح کا ہے، الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفاف طریقہ کار سے نشستوں کے لیے لسٹ دینی ہوتی، سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی، جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کردے گا۔

اس پر وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی، جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں، آزادامیدوار تین دنوں کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا؟ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔

مخدوم علی خان نے ریمارکس دیے کہ اپیلوں میں یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے الگ اصول اپنایا گیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان آزاد ہوکر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، پی ٹی آئی کے دو ارکان نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔

الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، عدالت

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں، آج آئین کی پاسداری نہیں ہو رہی، ہم نے بطورسپریم کورٹ سرریت میں دبا لیے ہیں، لاپتا افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہیں، یہ سب سیاسی مقدمات نہیں انسانی حقوق کا معاملہ ہے، ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا، میری نظرمیں آج بھی سب سے اہم درخواست اس عدالت میں 8 فروری الیکشن میں دھاندلی کی ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں؟ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا؟ اہم سوال ہی یہ ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفیکیشن کے تین روز بعد اگر وہ کوئی اور جماعت میں شامل ہوجائے۔

جسٹس جمال مدوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہہ سکتے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں، الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔

جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے، جسٹس منیب اختر نے بتایا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، عدالت کے سامنے کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں،جو کیس ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی، جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو ریکارڈ میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔

’الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟‘

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلی ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ عوام حق رائے دہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔

جسٹس یحیی’ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ایک پارٹی سے وابستگی کا ڈیکلیریشن جمع کرانے والے بعد میں دوسری جماعت میں چلے گئے، اب ان امیدواروں کے بعد والے فیصلے کو دیکھا جانا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلیریشن دے کر دوسری میں چلا جائے، میری نظر میں اس بات پر امیدوار نااہل بھی ہو سکتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی ادارے الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کو 2 فروری کے روز آزاد ڈیکلیئر کر دیا تھا، اس کے بعد ان امیدواروں کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مندوخیل نے سوالات اٹھائے، مسئلہ مگر الیکشن کمیشن کے دو فروری کے آرڈر سے پیدا ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی تھی، اس بات پر نتائج لوگ کیوں بھگتیں؟

ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ میری نظر میں ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا؟ لاکھوں افراد نے ووٹ دیا ان کے حق کا تحفظ کرنا ضروری ہے، امیدواروں نے خود کو تحریک انصاف سے الگ نہیں کیا۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات صاف شفاف ہونے چاہیں مگر سوالات بہت سنجیدہ اٹھے ہیں، موجودہ انتخابات کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھے ہیں، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی ہے کہ دیکھے کوئی سیاسی انجینئرنگ نہیں ہوئی، اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور ہم اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت نے دریافت کیا کہ تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی میں کیا فرق ہے؟کبھی تحریک انصاف ہوجاتی ہے کبھی تحریک انصاف نظریاتی ان میں فرق بتائیں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا تحریک انصاف نظرثانی سیاسی جماعت ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف نظرثانی سیاسی جماعت ہے جس کا انتخابی نشان بلے باز ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا، سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جارہا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہرکیا؟ کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ الیکشن کے حوالے سے بات کررہے،جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔

سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، عدالت

جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا مؤقف کیا ہے؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ جسٹس عائشہ نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں! فارمولا کیا ہے؟

اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد نے انتخابات میں حصہ لیا نا مخصوص نشستوں کی لسٹ فراہم کی، اس موقع پر جسٹس عائشہ نے دریافت کیا کہ ایسے کیا متناسب سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں کو مل جائیں گی؟ فرض کریں سنی اتحاد کو نہیں ملتیں مخصوص نشستیں لیکن آپ کو کیسے ملنی چاہیے ؟

مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل نے جواب دیا کہ میں فرضی سوالات کے جوابات نہیں دوں گا، جسٹس منیب اختر نے کہا اگر کوئی ممبر استعفیٰ دے دے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دے گی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا لپ ماضی میں بھی انتخابات میں پارلیمنٹ کو مکمل کرنے کے لیے مخصوص نشستیں دی گئیں،وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ایسا کیس کبھی نہیں آیا کہ کسی پارٹی نے انتخابات لڑے نہیں اور مخصوص نشستیں مانگ رہی ہو۔

اس پر جسٹس یحیی آفریدی نے دریافت کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی رہ سکتی ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ نہیں، مخصوص نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں۔

آمر آئے تو ساتھ ہوجاتے، جمہوریت آئے تو چھریاں نکال لیتے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں، اپنے آئین پر عملدرآمد کے بجائے دوسرے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، آئین کا تقدس ہے اور اس پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں نے غلطیاں نہیں کیں، سنی اتحاد نے جس طرح کیس کو عدالت میں پیش کیا ویسے ہی اسے دیکھنا چاہیے، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہیے سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ کوئی نہیں کہتاکہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائےگا، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدر اور سینٹ انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے، کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہوہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہورہا ہے، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہورہا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج کیس مکمل کرنا ہے۔

بعد ازاں ، وکیل مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائےگی؟ انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیٹ سکتی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ نہیں دیتی اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے۔

جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں اس میں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے، وکیل

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں اس میں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے، جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔

چیف جسٹس قاضئ فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت کے منشور میں اقلیتی خانہ شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائےگی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا؟ خریدنا تو ضروری ہے۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواستگزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیرالتوا ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ درخواستیں کیوں زیرالتوا ہیں اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا، اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ نہیں دی اور بعد میں دی تو یہ مزید غیر جمہوری ہوگا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہحالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں، مسئلہ یہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی؟ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، آپ کہہ رہے اگر سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں مسلم لیگ (ن) کی ہوگئیں۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں تقسیم گئی ہیں، وکیل نے بتایا کہ آزادامیدوار نے ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمائندگی پر بات کرنا ضروری ہے؟ اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے، تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ اگر دو سیاسی جماعت ہیں تو انہی پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا، دو سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستیں بانٹنے کا طریقہ ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتاہے، وکیل نے بتایا کہ میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتیں بھی آپ کی سیاسی جماعت میں آکر بیٹھیں، اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گے۔

ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اقلیت، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے، ماضی کے انتخابات میں ن لیگ ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ میں مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہورہاہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی، ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ابھی تو ہم موجودہ درخواستوں پر کرلیں گے بات لیکن مستقبل میں ایسا وقت ضرور آئےگا جب سپریم کورٹ دوبارہ افسوس کرے گی۔

اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے نا لسٹ دی اور نا ہی انتخابات میں حصہ لیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت ہے جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات سے بائیکاٹ کرلیتی ہے تو کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟

اسی کے ساتھ مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر روسٹرم پر آگئے، انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا شیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا ہے جس میں مخصوص اور جنرل سیٹیں شامل ہوتی ہیں، جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی، مخصوص نشستوں کابھی نوٹیفکیشن ہوتا ہے، فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتا ہے، ریٹرننگ افسران مخصوص، جنرل نشستوں کے فارم 33 کی اسکروٹنی کرتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ فارم 66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بلکل ایک طرح کا ہے، کاغذات نامزدگی پہلی اسٹیج ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے، خواتین کی مخصوص نشست والے وزیر اعظم کے لیے بھی امیدوار ہوسکتے ہیں۔

اسی کے ساتھ عدالت نے مقدمے کی سماعت میں 3 بجے تک وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد دلائل کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آزاد امیدواروں پر مبنی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کے تحت سیاسی جماعت نہیں، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے سیاسی جماعت کے لیے ایک آدھ سیٹ جیتنا لازم ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ یعنی آپ کے مطابق ان لسٹڈ پارٹی ڈی لسٹ ہوجائے گی؟ الیکشن ایکٹ میں سیاسی جماعت کو ڈی لسٹ کرنے کا بھی طریقہ ہے۔

صرف آزاد امیدواروں پر مشتمل جماعت آرٹیکل 51 کی تعریف والی جماعت نہیں ہو سکتی، وکیل الیکشن کمیشن

سکندر بشیر نے بتایا کہ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آرٹیکل 51 کے تحت سیاسی جماعت کی تعریف الگ ہوگی، آئین کی تشریح کا اصول سادہ قانون کی تشریح سے مختلف ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے صرف آزاد امیدواروں پر مشتمل جماعت آرٹیکل 51 کی تعریف والی جماعت نہیں ہو سکتی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعت ایک جماعت تو رہے گی، وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ وہ جماعت ضرور رہے گی مگر آرٹیکل 51 والے مقاصد کے لیے وہ بطور جماعت نہیں ہوگی۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے لیکن ایک بھی سیٹ نہ جیتے تو کیا سیاسی جماعت مانی جائےگی؟ وکیل نے بتایا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو کم سے کم ایک سیٹ جیتنا لازمی ہے، سیاسی جماعت نے ایک بھی سیٹ نہ جیتی ہو اور 200 سو آزادامیدوار ساتھ ہوں تو صفر مخصوص نشستیں ملیں گی۔

اس پر جسٹس جمال مندوکیل نے کہا کہ یعنی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سابق پی ٹی آئی بیک امیدوار کا کوئی تصور نہیں، جسٹس ،حمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے اس وقت کیا لکھا گیا؟ وکیل نے بتایا کہ میں اپنی معروضات ختم کرکے بینچ کے سوالات کے جواب دوں گا۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرایا؟ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی بھی آزاد امیدوار کو پارٹی تو سپورٹ کرسکتی ہے لیکن ہوگا آزاد امیدوار ہی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے دریافت کیا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ٹکٹ پی ٹی آئی نظریاتی کے تھے یا تحریک انصاف کے؟ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان مانگا، امیدواروں کا کہنا تھا کہ میں فلاں سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں لیکن انہوں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان مانگا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید استفسار کیا کہ کیا امیدواروں نے تحریک انصاف کا سرٹیفیکیٹ جمع کروایا؟ وکیل نے بتایا کہ نہیں پی ٹی آئی کا نہیں دیکھا، تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ تھے۔

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ اگر پی ٹی آئی امیدوار نظریاتی کا سرٹیفکیٹ واپس لے کر پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ جمع کرواتے تو کیا ہوتا؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ قانون کے مطابق انتخابی نشان کا ہونا بھی تقاضا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی؟ پریس کانفرنس ہوتی رہی، وکیل نے بتایا کہ میں اس کا جواب اس لیے نہیں دے سکتا کیونکہ یہ تھیوریٹیکل سوال ہے، میں نے کوئی پریس کانفرنس خود نہیں سنی، میں صرف اس کیس تک خود کو محدود رکھوں گا، ججز میرے منہ سے کیوں الفاظ نکلوانا چاہتے ہیں؟

اس پر جسٹس منیب اختر نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان فیئر کمنٹ ہے،چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ آگے بڑھیں۔

بعد ازاں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے چھ خطوط الیکشن کمیشن کو لکھے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک خط پڑھیں، وکیل شکندر بشیر نے بتایا کہ پہلے خط میں سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے کہا ہمارے امیدوار آزاد ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے دیں آپ الیکشن کمیشن پر اپنی دلیل نہ ڈالیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک آئینی ادارے کی نمائندگی کررہے ہیں جس کا کام انتخابات کروانا ہے، پریس کانفرنسز پوری دنیا نے دیکھیں کیا الیکشن کمیشن نے دیکھا کیوں پریس کانفرنسز ہوئیں؟ کیا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں تھی کہ پریس کانفرنسز ہونے کی وجہ دیکھیں؟

وکیل نے جواب دیا کہ میں مفروضوں پر مبنی سوالات کا جواب نہیں دوں گا، مجھے معلوم نہیں پریس کانفرنسز کیوں ہوئیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے کبھی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنی لسٹ دی؟ وکیل سند بشیر نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی لسٹ نہیں دی، صوبائی، قومی میں اقلیتی اور خواتین کی الگ الگ لسٹیں بنتی ہیں، کُل 13 لسٹیں بنتیں، سنی اتحاد کونسل نے ایک بھی نہیں دی۔

اس پر عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے تحریک انصاف کی جانب سے کوئی سرٹیفکیٹ نہیں آیا اور وجہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا؟ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں کیسے تحریک انصاف کے سرٹیفیکٹ جمع کرائیں گے؟ وکیل نے بتایا کہ میرا فیصلہ نہیں تھا تحریک انصاف نے سرٹیفیکٹ فائل نہیں کیا

جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کا طریقہ کار جواب دینے کا نامناسب ہے، وکیل نے مزید کہا کہ سنی اتحاد نے چھ خطوط الیکشن کمیشن کو بھیجے جن میں سے ایک بھی فارم 66 سے متعلق نہیں تھا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن کے وکیل نے چیئرمین سنی اتحاد حامد رضا کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خطوط پڑھ کر سنائے۔

الیکشن کمیشن نے غلطیوں پر غلطیاں کیں، عدالت

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن رولز کے سیکشن 92 ذیلی شق 6 کے تحت سیاسی پارٹی کو پارٹی سرٹیفکٹ جمع کرانا ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ لگتا ہے الیکشن کمیشن نے غلطیوں پر غلطیاں کی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے خط پر دستخط بھی خود کیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کل ہم نے الیکشن کمیشن سے دستاویزات جمع کرانے کا کہا تھا، وکیل نے بتایا کہ کل عدالتی کارروائی ساڑھے 4 بجے ختم ہوئی، میں دفتر 6 بجے پہنچا، ایک خط میں لکھا گیا سنی اتحاد کونسل اتحادی پی ٹی آئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے چیئرمین سنی اتحاد حامد رضا کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خطوط پڑھ کر سنائے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ وہ بات کریں جو الیکشن کمیشن نے کی ہے اپنی رائے نہ دیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 13 تاریخ کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے تھے اسی دن سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، پی ٹی آئی امیدواروں کے پاس اور کیا آپشن تھا؟ وکیل نے بتایا کہ چیف جسٹس بھی فرما چکے جو کیس یہاں نہیں اس پر نہیں جاؤں گا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد نے کبھی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنی لسٹ دی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی لسٹ نہیں دی، صوبائی، قومی، اقلیتی اور خواتین کی الگ الگ 13 لسٹیں بنتی ہیں مگر سنی اتحاد نے ایک بھی نہیں دی، الیکشن کمیشن لسٹیں جمع کرتا ہے سنی اتحاد نے صرف خطوط لکھے، میں ڈی جی لا سے اردو کی دستاویزات پڑھنے کے لیے معاونت چاہوں گا، حامد رضا نے لکھا سنی اتحاد سے ہوں اور بریکٹ میں اتحادی تحریک انصاف کا نام لکھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ میں انتخابات میں اتحاد کے قوانین ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت مختلف سیاسی جماعتیں اتحاد کر سکتی ہیں، حامد رضا نے الیکشن کمیشن کو خط میں لکھا اگر بلا نہیں ملتا تو شٹل کاک کا نشان دے دیا جائے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے امیدوار سے کیوں نہیں پوچھا کہ آپ سنی اتحاد سے ہیں لیکن پی ٹی آئی کا سرٹیفیکٹ دے رہے؟ آپ سنی اتحاد کا سرٹیفکیٹ دیں، وکیل نے کہا کہ حامد رضا تو خود چیئرمین سنی اتحاد کونسل ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تحریک انصاف کے امیدوار تھے لیکن انہیں بلے کا نشان نہیں ملا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر تھا، اس کے اثرات ہوسکتے تھے، عدالت

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر تھا، اس کے اثرات ہوسکتے تھے، جمہوریت کی ضرور بات کرنی ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروانا، ہمارا کام نہیں کہ کون کس کو منتخب کرتا ہے، بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ ایک سال دے دیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے، اب تو شاید الیکشن کمیشن کے دشمن ہوگئے ہیں، مجھے نہیں سمجھ آتی کیوں اپنی سیاسی جماعت میں انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرواتے، یہی جمہوریت ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ انتخابی نشان واپس ہونے سے پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جب انتحابی نشان واپس ہوا تو الیکشن کمیشن نے آزاد امیدوار کیسے قرار دے دیئے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ میں جمہوریت لے آئے، چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ موجودہ کیس میں بار بار انتخابی نشان والے کیس کا ذکر کیا جارہا ہے، انتحابی نشان سے متعلق کیس میں نظرثانی زیر التوا ہے، انتخابی نشان کیس میں بینچ کی ایک ممبر کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے، نظرثانی کیس قانون کے مطابق سنا جائے گا، انتخابی نشان والے کیس پر دوسرا بنچ بحث نہیں کر سکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انتحابات سے قبل کیا سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن نے حقائق سے آگاہ کیا تھا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں انتخابی نشان والے کیس میں وکیل نہیں تھا، اس لیے ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں بھی ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت جمہوریت لے آئے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بلے کے نشان سے متعلق فیصلے پر کنفیوز کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ بلے کے نشان پر نہیں، سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا تھا، انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے نشان کا فیصلہ کہنے میں فرق ہے، ایک طرف نظرثانی کررہے اور دوسری طرف تبصرہ کررہے ہیں، کسی اور بینچ کا فیصلے پر ریمارکس دینا درست نہیں، آگے چلیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کوئی بھی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا رہا، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ سماعت ہم پرسوں ساڑھے گیارہ تک ملتوی کرتے ہیں اور کیس کی مزید سماعت 27 جون بروز جمعرات ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آج کیس ختم نہیں ہورہا، پرسوں تک کیس ملتوی کر دیتے ہیں مگر وکلا دلائل مختصر رکھیں۔

گزشتہ سماعتوں کا احوال

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔

22 جون کو قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔

4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔

3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔

31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔

4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مخصوص نشستوں کا کیس: عمران خان بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، چیف جسٹس

سنی اتحاد کونسل میں غیرمسلم ممبر نہیں بن سکتا، مخصوص نشستوں کی اہل نہیں، الیکشن کمیشن کا جواب جمع

سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا، جسٹس منیب اختر