پاکستان

الیکشن کمیشن کے نئے ٹریبونل کو کام سے روک دیا گیا

میرے جج پر الزامات لگائے گئے تو عدالت اس کو سنجیدگی سے لے گی، جنہوں نے جج پر تعصب الزام لگایا، انہیں توہین عدالت کا نوٹس نہ جاری کروں؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تفویض کردہ نئی الیکشن ٹربیونل کو کام کرنے سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن ترمیی آرڈنینس اور الیکشن کمیشن کو کارروائی سے روکنے سے متلعق درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کے ٹربیونل تبدیل کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کردی ہے، اس پر اعتراض لگا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ تو اتنے سینئیر وکیل ہیں، آپ کے ہوتے ہوئے ایسے فیصلے کیسے آ گئے؟ آپ نے جو ٹریبونل تبدیل کی ہے وہ کس بنیاد پر کی ہے؟ بات یہ ہے کہ آپ ایک نئی جیوریکڈیکشن بنانے جا رہے ہیں۔ آپ کو اگر پروسیجر سے مسئلہ تھا تو اس کو عدالت میں چیلنج کرتے۔

ڈی جی لا نے مؤقف اپنایا کہ ہم عدالت کی معاونت کریں گے، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے آپ کی معاونت کی کوئی ضرورت نہیں، آپ نے فیصلہ دیا ہے، اب میں فیصلہ جاری کروں گا۔

فیصل چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن جو چاہے وہ نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق کام کرنا ہے، اسی عدالت کے سیکڑوں فیصلے موجود ہیں، عدالت نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن سے استفسار کیا آپ سینئیر آدمی ہیں، یہ بتائیں جب فیصلہ جاری نہیں ہوا اور آپ ریکارڈ واپس مانگ رہے ہیں؟ یہ کیسے کیا؟ ٹرانسفر کرنے کا اختیار آپ کے پاس ہے لیکن آپ نے ریکارڈ واپس منگوا لیا تا کہ جج سن نہ سکے؟

انہوں نے کہا کہ یہ رویہ ناقابلِ برداشت ہے، جس نے درخواست دی اس کا کام تھا کہ ریکارڈ وہ ساتھ لگاتا، الیکشن کمیشن نے سارا کچھ کرنا ہے انہوں نے خود کچھ نہیں کرنا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن سومو ٹو پاور کے تحت یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتا، یہ اختیار استعمال کرنے کے لیے آپ کے پاس کوئی درخواست آنی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوچ سمجھ کر بحث کیجیئے گا، جس کا دفاع کرسکتے ہیں اسی کا دفع کریں، مجھے ان کے اختیارات کا بھی پتہ ہے اور اپنے اختیارات کا بھی پتہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے تو بتائیں؟ میں ابھی فیصلہ معطل کر کے ریکارڈ واپس منگوا کر ٹریبونل بحال کر دیتا ہوں، جو مقصد آپ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں وہ میں نہیں ہونے دوں گا۔

وکیل شعیب شاہین نے مؤقف اپنایا کہ اپلیٹ ٹریبونل نے ان کو کئی مواقع دیے، ان سے جواب مانگا مگر انہوں نے جواب جمع نہیں کرایا، اپلیٹ ٹریبونل نے تو ان سے فارم پینتالیس اور بیان حلفی جمع کرنے کا کہا تھا۔ الیکشن ٹریبونل کے نوٹسسز پر انہوں نے جواب ہی جمع نہیں کرایا، پہلا اعتراض یہ کیا گیا کہ ٹریبونل کے جج معتصب ہیں، ہم پر اعتراض تھا کہ یہ وکیل ہیں انکو فیور ملے گی۔

جج پر غلط الزامات لگانے والا جیل جائے گا، 5 سال کے لیے نااہل بھی ہوگا، چیف جسٹس

شعیب شاہین نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل آگے ہونا ہے، ایشوز فریم ہونے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹربیونل نے ایسا کیا کہہ دیا تھا جس سے یہ ڈر گئے؟ شعیب شاہین نے بتایا اپلیٹ ٹریبونل نے کہا تھا کہ جس نے بھی غلط بیان حلفی دیا تو جیل بھیج دونگا، اپلیٹ ٹریبونل کے اس آرڈر سے یہ ڈر کر بھاگ گئے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے اگر میرے جج پر الزامات لگے گئے تو یہ عدالت اس کو سنجیدہ لے گی، جنہوں نے یہ جج کے معتصب الزام لگایا ہے میں اس کو توہین عدالت کا نوٹس نہ جاری کروں؟ خدا کا خوف کریں آپ نے ہائیکورٹ کے جج پر الزام لگایا ہے کہ جج نیپوٹزم کرتا ہے۔

عدالت نے انجم عقیل خان کو اگلی سماعت پر ذاتی احثیت میں طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے اپنے فائدے کے لیے ان کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں، الیکشن کمیشن نے اس الزام میں کیسز ٹرانسفر کر دیا، ہائی کورٹ کے جج کے حوالے ایسے زبان کا استعمال کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا، اگر جج پر لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوئے تو الزامات لگانے والا جیل جائے گا اور پانچ سال کے لیے نااہل بھی ہوگا۔

عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کے نئے ٹریبونل کو کام سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت 24 جون تک ملتوی کردی۔

واضح رہے گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے ٹربیونل ججز کی تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی تھی۔

اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعلان کردہ فاتحین نے وفاقی دارالحکومت کے واحد پول ٹربیونل کے سامنے زیر التوا انتخابی درخواستوں کو ’کسی دوسرے ٹریبونل‘ میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

یہ پیشرفت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک متنازع آرڈیننس جاری کیے جانے کے بعد سامنے آئی جس کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے طور پر ریٹائرڈ ججوں کی تقرری کے لیےالیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے۔

چونکہ اسلام آباد میں واحد ٹربیونل ہے اس لیے مقدمات کو دارالحکومت سے باہر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

این اے 46، این اے 47 اور این اے 48 سے کامیاب قرار دیے گئے امیدوار انجم عقیل خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور راجا خرم شہزاد نے اپنی درخواستوں میں نہ صرف ان کے خلاف الیکشن پٹیشن کسی دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ ان کی درخواستوں کے حتمی نتائج آنے تک الیکشن ٹریبونل کے سامنے کارروائی روکنے کی بھی استدعا کی ہے۔

قانونی صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک ہی الیکشن ٹریبونل ہے اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن مقدمات کو اسلام آباد سے باہر کسی ٹربیونل میں منتقل نہیں کر سکتا اور ریٹائرڈ ججوں کو بطور الیکشن ٹربیونل تعینات کرنے کا اختیار دینے والے آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

درخواست گزاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں ٹربیونل سے انصاف نہیں ملے گا جہاں ان کے مقدمات زیر التوا ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کا حق انصاف کا سنگ بنیاد ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل 10 اے کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن میں کچھ قانونی خامیاں اور نقائص ہیں جو کہ کافی اہم نوعیت کے ہیں اور انتخابی پٹیشن کو خارج کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم، اس کا کہنا ہے کہ ٹربیونل نے نہ صرف الیکشن پٹیشن کے تمام مدعا علیہان کو طلب کیا بلکہ سماعت کی پہلی ہی تاریخ میں متعلقہ حکام سے الیکشن کا پورا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن کا درخواست گزار بد نیتی کے ساتھانہیں قانونی حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

عالمی بینک نے پاکستان کیلئے ایک ارب ڈالرز فنڈنگ کی منظوری دے دی

کیا کینیڈا آج ٹی 20ورلڈکپ میں پاکستانی مہم کا خاتمہ کرسکتا ہے؟

اے آر رحمٰن کے ساتھ رابطہ کرکے ان کے ساتھ کام کرنے میں 7 سال لگے، شیراز اپل