پیپلز پارٹی کا بجٹ، ہتک عزت کے قانون پر مشاورت ’نہ کرنے‘ پر تحفظات کا اظہار
پیپلز پارٹی نے بجٹ اور حال ہی میں نافذ کردہ ہتک عزت کے قانون جیسے اہم مسائل پر پنجاب حکومت کی طرف سے مشاورت کے فقدان پر کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ پیپلز پارٹی صوبے میں باضابطہ طور پر مخلوط حکومت کا حصہ نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل ہے، لیکن اس نے قانون سازی کے دوران اسمبلی میں حکمران جماعت کی حمایت کی ہے۔
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکریٹری سید حسن مرتضیٰ نے پیر کو اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ان کی پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ اس لیے ووٹ نہیں دیا تھا کہ وہ بجٹ کچن میں تیار کرے۔
انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بجٹ تجاویز تیار کرتے وقت پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پہلا بجٹ ہوگا جس میں حکومت نے اپنے اتحادیوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور پنشنرز کے لیے ابھی تک کسی ریلیف پلان کا اعلان نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی کو وزیراعلیٰ مریم سے بہت زیادہ توقعات تھیں کہ وہ اپنے والد نواز شریف کے وژن کے مطابق صوبے کو آگے لے کر جائیں گی۔
تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کسان، جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، پنجاب حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
صوبائی محکمہ زراعت بوائی شروع ہونے سے پہلے گندم کی خریداری کے لیے ایک جامع پالیسی مرتب نہیں کرسکا اور اس عدم فیصلے نے کاشتکاروں کو سخت محنت کرنے اور بمپر فصل کاٹنے کے بعد مایوسی میں ڈال دیا۔
حسن مرتضیٰ نے پوچھا کہ کیا حکومت کسانوں کو اس سیزن میں گندم کی خریداری نہ کرنے کے تاخیری فیصلے کی تلافی کرے گی؟
حکومت میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں
پنجاب ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کا حوالہ دیتے ہوئ پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ان کی پارٹی صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کے حق میں نہیں ہے، ہم اس قانون کو واپس لینے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہم میڈیا مخالف کسی قانون کا حصہ نہیں بن سکتے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت اس قانون اور اقدام کے خلاف عدالت جائے گی اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت ہی فیصلہ کرے گی۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل پی ٹی آئی نے بھی اس قانون کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کے ارکان اور صحافیوں نے شدید تنقید کی تھی۔
انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی قانون کے مسودے یا اس کے نفاذ میں ملوث نہیں بلکہ انہوں نے اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی۔
صوبائی حکومت میں باضابطہ شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں مرتضیٰ نے مزید کہا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی اور فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے اپیل سماعت کیلئے مقرر کردی
ایک متعلقہ پیش رفت میں، لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے رجسٹرار نے پنجاب ہتک عزت ایکٹ 2024 کے خلاف اپیل سماعت کے لیے مقرر کر دی ہے۔
جسٹس محمد امجد رفیق پر مشتمل سنگل رکنی بینچ آج (منگل کو) کیس کی سماعت کرے گا۔
یہ چیلنج صحافیوں ریاض احمد راجہااور جعفر احمد یار نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کے توسط سے اس بنیاد پر دائر کیا گیا ہے کہ یہ قانون آئین میں موجود بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
قبل ازیں، رجسٹرار آفس نے درخواست گزاروں کی جانب سے جاری ہونے والے گزٹ نوٹیفکیشن کو پیش کرنے کے بعد جانچ پڑتال کا عمل مکمل کرلیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ حکومت کو نیا قانون بنانے کے بجائے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنی چاہیے تھی۔
اس نے مزید کہا کہ یہ قانون صحافیوں سے مشورہ کیے بغیر جلد بازی میں متعارف کرایا گیا، اور اس کا مقصد میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قانون میں فراہم کردہ صحافی اور اخبار کی تعریف غیر معقول اور مبہم ہے۔
درخواست کے مطابق، یہ قانون ہتک عزت کے دعوؤں کو بغیر کسی ثبوت کے شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے، جو کہ آئین کے آرٹیکل اے 10 کی واضح خلاف ورزی ہے، جو ہر فرد کے لیے منصفانہ ٹرائل کو یقینی بناتا ہے۔
درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہونے پر قانون کو کالعدم قرار دیا جائے۔